Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding the prohibition of speaking ill about the dead)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4900.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے مرنے والوں کی خوبیاں بیان کیا کرو اور ان کی برائیوں سے باز رہو۔“
تشریح:
مرنے والا اپنے کیے ہوئے اعمال کی جزا وسزا پانے کے لیے اگلے جہا ں جا چکا ہے، اب اس کا برا تذکرہ اس کے وارثوں کے لیئے اذیت کے علاوہ تمھارے آپس کے درمیان بغض کا باعث بنے گا۔ ہاں شرعی ضرورت کے تحت کسی کا کفرشرک بدعت واضح کرنا ضروری ہو تو بیان کیا جائے تا کہ لوگ متنبہ رہیں، جیسے بعض لوگ فاسد عقیدے کی اشاعت کا باعث بنے ہوں یا روایتِ حدیث میں ضعیف رہے ہوں تو ان کا تذکرہ دین کا حصہ ہے نہ کہ کوئی ذاتی غرض۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے مرنے والوں کی خوبیاں بیان کیا کرو اور ان کی برائیوں سے باز رہو۔“
حدیث حاشیہ:
مرنے والا اپنے کیے ہوئے اعمال کی جزا وسزا پانے کے لیے اگلے جہا ں جا چکا ہے، اب اس کا برا تذکرہ اس کے وارثوں کے لیئے اذیت کے علاوہ تمھارے آپس کے درمیان بغض کا باعث بنے گا۔ ہاں شرعی ضرورت کے تحت کسی کا کفرشرک بدعت واضح کرنا ضروری ہو تو بیان کیا جائے تا کہ لوگ متنبہ رہیں، جیسے بعض لوگ فاسد عقیدے کی اشاعت کا باعث بنے ہوں یا روایتِ حدیث میں ضعیف رہے ہوں تو ان کا تذکرہ دین کا حصہ ہے نہ کہ کوئی ذاتی غرض۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر اگر اس لیے کیا جائے تاکہ لوگ اس سے بچیں اور عبرت حاصل کریں تو جائز ہے، اسی طرح سے ضعیف اور مجروح رواۃ حدیث پر جرح و تنفید بھی باتفاق علماء جائز ہے، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ، اس لیے کہ اس کا مقصد عقیدہ، علم، اور حدیث کی خدمت و حفاظت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah ibn Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said: Make a mention of the virtues of your dead, and refrain from (mentioning) their evils.