Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding a man abandoning his brother)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4910.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غصہ مت کیا کرو۔ ایک دوسرے سے حسد مت کیا کرو۔ ایک دوسرے کو پیٹھ مت دیا کرو (کہ میل جول چھوڑ دو) بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین رات سے زیادہ میل جول چھوڑے رہے۔“
تشریح:
تین دن رات سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا اس صورت میں ناجائز اور حرام ہے، جب محض اپنی ذات کے لیے ہو۔ اگر اللہ تعالی کے لیئے ہو تو یہ مشروع، محبوب اور ممدوح ہے۔ امام ابو داؤد ؒ نے حدیث: 4916 کے آخر میں اس مسئلے کی وضاحت کر دی ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غصہ مت کیا کرو۔ ایک دوسرے سے حسد مت کیا کرو۔ ایک دوسرے کو پیٹھ مت دیا کرو (کہ میل جول چھوڑ دو) بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین رات سے زیادہ میل جول چھوڑے رہے۔“
حدیث حاشیہ:
تین دن رات سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا اس صورت میں ناجائز اور حرام ہے، جب محض اپنی ذات کے لیے ہو۔ اگر اللہ تعالی کے لیئے ہو تو یہ مشروع، محبوب اور ممدوح ہے۔ امام ابو داؤد ؒ نے حدیث: 4916 کے آخر میں اس مسئلے کی وضاحت کر دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ (یعنی ملاقات ترک نہ کرو) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ حکم ایسی ناراضگی سے متعلق ہے جو مسلمانوں کے درمیان باہمی معاشرتی حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئی ہو، اور اگر دینی امور میں کوتاہی کی وجہ سے ہو تو یہ جائز ہے، بلکہ بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے میل جول نہ رکھنا واجب ہے، جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لیں، اور حق کی طرف پلٹ نہ آئیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas b. Malik reported the Messenger of Allah (May peace be upon him) as saying: Do not hate each other; do not envy each other; do not desert each other; and be the servants of Allah as brethren. It is not allowed for a Muslim to keep apart from his brother for more than three days.