Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding singing)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4922.
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی ہوئی اس صبح رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر اسی طرح تشریف فرما ہوئے تھے جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ تو (انصار کی) چھوٹی بچیاں اپنے اپنے دف بجانے لگیں اور میرے ان آباء کا ذکر کرنے لگیں جو بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ایک بچی نے کہا: اور ہم میں ایسا نبی ہے جو کل آئندہ کی بات جانتا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس بات کو چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھی۔“
تشریح:
1) بچیوں کو انکی خانہ آبادی پر مبارکباد دینے جانا مستحب عمل ہے۔ 2) ایسی خوشیوں کے مواقع پر چھوٹی نابالغ بچیوں کا دف بجانا جائز اور مستحب ہے تا کہ نکاح اور شادی کا اعلان ہو۔ 3) آلاتِ مو سیقی میں سےصرف دف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ خود ساختہ سادہ سی ڈھولک ہوتی ہے جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے۔ 4) اسلاف مسلمین کے کارناموں کا ذکر کرنا ممدوح ہے۔ 5) شادمانی کا موقع ہو یا کسی غمی کا ایسی بات کہنا یا کرنا جو شرعی اُصول و قواعد کے خلاف ہو ناجائز ہے۔ 6) رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ کہ آپ علمِ غیب جانتے تھے غلط عقیدہ ہے نبی ﷺ نے اس کی تصدیق و تائید نہیں فرمائی۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی ہوئی اس صبح رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر اسی طرح تشریف فرما ہوئے تھے جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ تو (انصار کی) چھوٹی بچیاں اپنے اپنے دف بجانے لگیں اور میرے ان آباء کا ذکر کرنے لگیں جو بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ایک بچی نے کہا: اور ہم میں ایسا نبی ہے جو کل آئندہ کی بات جانتا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس بات کو چھوڑ دو اور وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھی۔“
حدیث حاشیہ:
1) بچیوں کو انکی خانہ آبادی پر مبارکباد دینے جانا مستحب عمل ہے۔ 2) ایسی خوشیوں کے مواقع پر چھوٹی نابالغ بچیوں کا دف بجانا جائز اور مستحب ہے تا کہ نکاح اور شادی کا اعلان ہو۔ 3) آلاتِ مو سیقی میں سےصرف دف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور یہ خود ساختہ سادہ سی ڈھولک ہوتی ہے جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے۔ 4) اسلاف مسلمین کے کارناموں کا ذکر کرنا ممدوح ہے۔ 5) شادمانی کا موقع ہو یا کسی غمی کا ایسی بات کہنا یا کرنا جو شرعی اُصول و قواعد کے خلاف ہو ناجائز ہے۔ 6) رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ کہ آپ علمِ غیب جانتے تھے غلط عقیدہ ہے نبی ﷺ نے اس کی تصدیق و تائید نہیں فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Ruhayyi’, daughter of Mu’awwidh b. ‘Afra’, said: The Messenger of Allah (May peace be upon him) came and visited me in the morning when I had been conducted to my husband, and sat on my bedding as you are sitting beside me. Some little girls of ours began to play the tambourine and eulogise those of my ancestors who were killed in the battle of Badr, and then one of them said: And among us is a Prophet who knows what will happen tomorrow. He said : Stop this and say what you were saying.