Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: About swings)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4937.
یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: ہم مدینے آئے اور بنو حارث بن خزرج کے ہاں ہمارا قیام ہوا۔ کہتی ہیں، اﷲ کی قسم! میں کھجور کی دو لکڑیوں میں لگے ایک جھولے پر تھی کہ میری والدہ آئیں، تو انہوں نے مجھے اس سے اتارا، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے۔ اور پوری حدیث بیان کی۔
تشریح:
آج کل کے بعض جدید مفکرین اور بزعمِ خویش نویس مزاج مجددین کو ان احادیث اور صغر سنی (چھوٹی عمر) کے اس نکاح اور شادی پر بہت اعتراض ہے۔ وہ مختلف انداز سے اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس انکار کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو چاہیئے کہ طبی، معاشرتی، علاقائی، اور جغرافیائی احوال و ظروف کا دقیق نظری سے مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ بعض احوال اور بعض علاقوں میں اس عمر کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور پھر عائلی زندگی کے فطری مراحل سے گزرنا ان کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ اس واقعے میں بالخصو ص یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں مزید قربت و شرف دینے کے لیئے عمل میں لایا گیا تھا۔ تا کہ انہیں رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں وقت بے وقت آنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور ان کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ربط و ضبط مزید گہرا ہو جائے۔ اور پھر اس نکاح کی بنیاد وہ خواب تھے جو تواتر کے ساتھ نبی ﷺ کو دکھلائے گئے تھے۔ یہ خواب اس بات کی طرف اشارہ تھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح نبی ﷺ کے ساتھ مقدر کر دیا گیا ہے۔ یہ احادیث صحیح اور واقعہ تاریخی شرعی اور فقہی اعتبار سے بالکل صحیح اور عین حق ہے اس کا انکار در حقیقت انکارِ حدیث کا زینہ ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: ہم مدینے آئے اور بنو حارث بن خزرج کے ہاں ہمارا قیام ہوا۔ کہتی ہیں، اﷲ کی قسم! میں کھجور کی دو لکڑیوں میں لگے ایک جھولے پر تھی کہ میری والدہ آئیں، تو انہوں نے مجھے اس سے اتارا، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے۔ اور پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
آج کل کے بعض جدید مفکرین اور بزعمِ خویش نویس مزاج مجددین کو ان احادیث اور صغر سنی (چھوٹی عمر) کے اس نکاح اور شادی پر بہت اعتراض ہے۔ وہ مختلف انداز سے اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس انکار کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو چاہیئے کہ طبی، معاشرتی، علاقائی، اور جغرافیائی احوال و ظروف کا دقیق نظری سے مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ بعض احوال اور بعض علاقوں میں اس عمر کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور پھر عائلی زندگی کے فطری مراحل سے گزرنا ان کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ اس واقعے میں بالخصو ص یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں مزید قربت و شرف دینے کے لیئے عمل میں لایا گیا تھا۔ تا کہ انہیں رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں وقت بے وقت آنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور ان کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ربط و ضبط مزید گہرا ہو جائے۔ اور پھر اس نکاح کی بنیاد وہ خواب تھے جو تواتر کے ساتھ نبی ﷺ کو دکھلائے گئے تھے۔ یہ خواب اس بات کی طرف اشارہ تھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح نبی ﷺ کے ساتھ مقدر کر دیا گیا ہے۔ یہ احادیث صحیح اور واقعہ تاریخی شرعی اور فقہی اعتبار سے بالکل صحیح اور عین حق ہے اس کا انکار در حقیقت انکارِ حدیث کا زینہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج میں اترے، قسم اللہ کی میں دو شاخوں کے درمیان ڈلے ہوئے جھولے پر جھولا جھول رہی تھی کہ میری ماں آئیں اور مجھے جھولے سے اتارا، میرے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): When we came to Madinah, the women came to me when I was playing on the swing, and my hair were up to my ears. They brought me, prepared me, and decorated me. Then they brought me to the Apostle of Allah (ﷺ) and he took up cohabitation with me, when I was nine.