Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: The prohibition of playing dice)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4939.
جناب سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نرد شیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون سے آلودہ کیا۔“
تشریح:
1) ایسے کھیل جو وقت اور سرمائے کے ضیاع کا باعث ہوں قطعاََ ناجا ئز ہیں۔ کھیل کا اصل مقصد ذہنی راحت اور جسمانی ورزش ہوتا ہے۔ اگر جائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہوتا ہو تو وہ ناجائز ہو جائیں گے۔ 2) ان صحیح احادیث اور مذکورہ اصول کی رو سے کرکٹ جیسے کھیل کی قطعاَ کو ئی اجازت نہیں۔ اور شرعا یہ ناجائز کھیل ہے، کیونکہ اس کھیل میں جس طرح بے دردی سے بے شمار لوگوں کا وقت ضائع ہوتا اور کیا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور کھیل میں نہیں ملتی۔ مزید برآں کرکٹ جیسے کھیل میں نماز روزے کی کو ئی پر واہ ہوتی ہے نہ کسی اور دینی و دنیوی کام کا خیال۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیل بین الاقوامی سطح پر جوئے جیسی بد ترین لعنت اور کبیرہ گناہ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ قومی اور ملکی سطح پر اس کے نقصانات اور مضر اثرات بے پناہ ہیں اور اس کے مقابلے میں فائدہ کچھ بھی نہیں۔ ایسا کھیل کھیلنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات ایک بندہ رحمان کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے لغو اور بے فائدہ کام کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا، بلکہ وہاں سے شرافت سے گزر جاتا ہے۔ قرآن مقدس میں ارشادِ باری تعالی ہے: (وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) رحمان کے بندے جب کسی لغو (دینی اور دنیوی اعتبار سے بے فائدہ) چیز سے گزرتے ہیں تو باعزت طور سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی خوبصور ت اور حساس شریعت اور ایسا پاکیزہ دین جس میں چوسر کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، اس دینِ فطرت میں کرکٹ جیسے کھیل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نرد شیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون سے آلودہ کیا۔“
حدیث حاشیہ:
1) ایسے کھیل جو وقت اور سرمائے کے ضیاع کا باعث ہوں قطعاََ ناجا ئز ہیں۔ کھیل کا اصل مقصد ذہنی راحت اور جسمانی ورزش ہوتا ہے۔ اگر جائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہوتا ہو تو وہ ناجائز ہو جائیں گے۔ 2) ان صحیح احادیث اور مذکورہ اصول کی رو سے کرکٹ جیسے کھیل کی قطعاَ کو ئی اجازت نہیں۔ اور شرعا یہ ناجائز کھیل ہے، کیونکہ اس کھیل میں جس طرح بے دردی سے بے شمار لوگوں کا وقت ضائع ہوتا اور کیا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور کھیل میں نہیں ملتی۔ مزید برآں کرکٹ جیسے کھیل میں نماز روزے کی کو ئی پر واہ ہوتی ہے نہ کسی اور دینی و دنیوی کام کا خیال۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیل بین الاقوامی سطح پر جوئے جیسی بد ترین لعنت اور کبیرہ گناہ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ قومی اور ملکی سطح پر اس کے نقصانات اور مضر اثرات بے پناہ ہیں اور اس کے مقابلے میں فائدہ کچھ بھی نہیں۔ ایسا کھیل کھیلنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات ایک بندہ رحمان کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے لغو اور بے فائدہ کام کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا، بلکہ وہاں سے شرافت سے گزر جاتا ہے۔ قرآن مقدس میں ارشادِ باری تعالی ہے: (وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا) رحمان کے بندے جب کسی لغو (دینی اور دنیوی اعتبار سے بے فائدہ) چیز سے گزرتے ہیں تو باعزت طور سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی خوبصور ت اور حساس شریعت اور ایسا پاکیزہ دین جس میں چوسر کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، اس دینِ فطرت میں کرکٹ جیسے کھیل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نردشیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Buraidah reported the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: If anyone plays backgammon, he sinks his hand in the flesh of swine and its blood.