Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Nicknames)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4962.
جناب ابوجبیرہ بن ضحاک بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ: {وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ} ”برے برے ناموں اور لقبوں سے مت پکارو، ایمان لے آنے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے۔“ یہ ہم، بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں تشریف لائے تو ہم میں کوئی ایسا نہ تھا کہ اس کے دو یا تین نام نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو بلاتے: ”ارے فلاں!“ تو لوگ کہتے: اے اللہ کے رسول! رکیے۔ تحقیق یہ آدمی اس نام سے ناراض ہوتا ہے۔ چنانچہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» اتری۔
تشریح:
معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب ابوجبیرہ بن ضحاک بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ: {وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ} ”برے برے ناموں اور لقبوں سے مت پکارو، ایمان لے آنے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے۔“ یہ ہم، بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں تشریف لائے تو ہم میں کوئی ایسا نہ تھا کہ اس کے دو یا تین نام نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو بلاتے: ”ارے فلاں!“ تو لوگ کہتے: اے اللہ کے رسول! رکیے۔ تحقیق یہ آدمی اس نام سے ناراض ہوتا ہے۔ چنانچہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» اتری۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی: {وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ} ”ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے۔“ (الحجرات: ۱۱) ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شروع کیا:“ اے فلاں، تو لوگ کہتے: اللہ کے رسول! اس نام سے نہ پکاریے، وہ اس نام سے چڑھتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب»
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Jubayrah ibn ad-Dahhak (RA): This verse was revealed about us, the Banu Salimah: "Nor call each other by (offensive) nicknames: ill-seeming is a name connoting wickedness (to be used of one) after he has believed". He said: When the Apostle of Allah (ﷺ) came to us, every one of us had two or three names. The Apostle of Allah (ﷺ) began to say: O so and so! But they would say: Keep silence, Apostle of Allah (ﷺ)! He becomes angry by this name. So this verse was revealed: "Nor call each other by offensive nicknames".