Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Giving a kunyah to a woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4970.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری سب سہیلیوں کی کنیتیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم اپنے بیٹے عبداللہ کے نام سے کنیت رکھ لو۔“ مقصد تھا کہ اپنے بھانجے کی نسبت سے۔ مسدد نے وضاحت کی کہ اس سے مراد ”عبداللہ بن زبیر“ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ام عبداللہ کنیت اختیار کر لی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور ابواسامہ نے ہشام سے، اس نے عباد بن حمزہ سے روایت کیا ہے۔ اور ایسے ہی حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا جیسے ابواسامہ نے کہا۔
تشریح:
عورتوں کے لیے بھی جائز ہے کہ کنیت اختیار کرلیں خواہ اولاد ہو یا نہ۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری سب سہیلیوں کی کنیتیں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم اپنے بیٹے عبداللہ کے نام سے کنیت رکھ لو۔“ مقصد تھا کہ اپنے بھانجے کی نسبت سے۔ مسدد نے وضاحت کی کہ اس سے مراد ”عبداللہ بن زبیر“ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ام عبداللہ کنیت اختیار کر لی۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور ابواسامہ نے ہشام سے، اس نے عباد بن حمزہ سے روایت کیا ہے۔ اور ایسے ہی حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا جیسے ابواسامہ نے کہا۔
حدیث حاشیہ:
عورتوں کے لیے بھی جائز ہے کہ کنیت اختیار کرلیں خواہ اولاد ہو یا نہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنے بیٹے یعنی اپنے بھانجے عبداللہ کے ساتھ کنیت رکھ لو۔“ مسدد کی روایت میں (عبداللہ کے بجائے) عبداللہ بن زبیر ہے، عروہ کہتے ہیں: چنانچہ ان کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی طرح روایت کی ہے، اور ابواسامہ نے ہشام سے اور ہشام نے عباد بن حمزہ سے اسے روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے روایت کیا ہے جیسا کہ ابواسامہ نے کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): 'Aishah said: Apostle of Allah (ﷺ)! All my fellow-wives have kunyahs? He said: Give yourself the kunyah by 'Abdullah, your son - that is to say, her nephew (her sister's son). Musaddad said: 'Abdullah ibn az-Zubayr. She was called by the kunyah Umm Abdullah. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Qurran b. Tammam and Ma'mar all have transmitted it from Hisham in a similar manner. It has also been transmitted by Abu Usamah from Hisham, from 'Abbad b. Hamzah. Similarly, Hammad b. Salamah and Maslamah b. Qa'nab have narrated it from Hisham, like the tradition transmitted by Abu Usamah.