Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Speech that conveys other than the intended meaning)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4971.
سیدنا سفیان بن اسید حضرمی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ” بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے ، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو ، جبکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔“
تشریح:
یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بھائی کو دھوکا دینا بہت بڑا قبیح گناہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے(اليمين علی نية المستحلف)۔ قسم میں وہی معنی معتبر ہوں گے جو قسم اٹھوانے والے نے مراد لیے ہوں (نہ کہ قسم اٹھانے والے کے۔)
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
تمہید باب
(معاریض) جمع(معراض) اس سے مراد ہے بات چیت میں ایسی ذومعنی بات کر نا جس کے دوپہلو ہوں ۔سچ اور جھوٹ یا ظاہر اور باطن۔ دشمن کے مقابلے میں جہاں شرعی مصلحت درپیش ہو وہاں ایسا انداز اختیار کر نا بلاشبہ جائز ہے اور اسے "تورية" كہتے ہیں۔لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بغیر شرعی ضرورت کےایسا انداز اختیارکر نا کہ اس ذریعے سے کسی حق کاانکارہویا کوئی حق مارلے'تو یہ جھوٹ اور دھوکا دہی ہے اور نا جائز ہے
سیدنا سفیان بن اسید حضرمی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ” بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے ، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو ، جبکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بھائی کو دھوکا دینا بہت بڑا قبیح گناہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے(اليمين علی نية المستحلف)۔ قسم میں وہی معنی معتبر ہوں گے جو قسم اٹھوانے والے نے مراد لیے ہوں (نہ کہ قسم اٹھانے والے کے۔)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سفیان بن اسید حضرمی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اور تم خود اس سے جھوٹ کہو ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : تعریض یا توریہ ایسے لفظ کے اطلاق کا نام ہے جس کا ایک ظاہری معنی ہوا، اور متکلم اس ظاہری معنیٰ کے خلاف ایک دوسرا معنی مراد لے رہا ہو جس کا وہ لفظ محتمل ہو، یہ ایک طرح سے مخاطب کو دھوکہ میں ڈالنا ہے اسی وجہ سے جب تک کوئی شرعی مصلحت یا کوئی ایسی حاجت نہ ہو کہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار نہ ہو ایسا کرنا صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sufyan ibn Asid al-Hadrami (RA):
I heard the Apostle of Allah (ﷺ) say: It is great treachery that you should tell your brother something and have him believe you when you are lying.