باب: ” لوگوں کا خیال ہے ، سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے “ وغیرہ انداز سے بات کرنا
)
Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding (saying) "they claim")
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4972.
جناب ابوقلابہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابومسعود ؓ نے ابوعبداللہ (سیدنا حذیفہ ؓ) سے یا ابوعبداللہ (حذیفہ ؓ) نے سیدنا ابومسعود ؓ سے پوچھا کہ آپ نے اس بارے میں کیا سنا ہے جو لوگ «زعموا» کے انداز میں بات کرتے ہیں؟ (لوگوں کا خیال ہے۔ باور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے وغیرہ)۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے «زعموا» آدمی کی بہت بری سواری ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: ابوعبداللہ سے مراد سیدنا حزیفہ ؓ ہیں۔
تشریح:
لوگوں سے سنی سنائی بے اصل باتوں کو بلا تحقیق وتفتیش آگےنقل کر نا بہت براہے۔ کئی لوگ اپنے وہم شبہے یا جھوٹ کو لاگ لپیٹ سے آگے بڑھانے میں بڑے شاطرہوتے ہیں بالخصوص موجودہ لادینی صحافت کا تو یہ طرہ امتیاز ہے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب ابوقلابہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابومسعود ؓ نے ابوعبداللہ (سیدنا حذیفہ ؓ) سے یا ابوعبداللہ (حذیفہ ؓ) نے سیدنا ابومسعود ؓ سے پوچھا کہ آپ نے اس بارے میں کیا سنا ہے جو لوگ «زعموا» کے انداز میں بات کرتے ہیں؟ (لوگوں کا خیال ہے۔ باور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے وغیرہ)۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے «زعموا» آدمی کی بہت بری سواری ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: ابوعبداللہ سے مراد سیدنا حزیفہ ؓ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
لوگوں سے سنی سنائی بے اصل باتوں کو بلا تحقیق وتفتیش آگےنقل کر نا بہت براہے۔ کئی لوگ اپنے وہم شبہے یا جھوٹ کو لاگ لپیٹ سے آگے بڑھانے میں بڑے شاطرہوتے ہیں بالخصوص موجودہ لادینی صحافت کا تو یہ طرہ امتیاز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومسعود ؓ نے ابوعبداللہ (حذیفہ) ؓ سے یا ابوعبداللہ نے ابومسعود سے کہا تم نے «زعموا» کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے سنا؟ وہ بولے: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: «زعموا» (لوگوں نے گمان کیا) آدمی کی بہت بری سواری ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چونکہ� «زعموا»� کا تعلق ایسے قول اور ایسی بات سے ہے جو غیر یقینی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے آپ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے اس لفظ و اپنے مقصد کے لئے سواری بنانے اور اس کی آڑ لے کر کوئی ایسی بات کہنے سے منع کیا ہے جو غیر محقق ہو اور جو پایہ ثبوت کو نہ پہنچتی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Mas’ud asked Abu ‘AbduAllah, or Abu 'Abd Allah asked Abu Mas’ud; what did you hear the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say about za’ama (they alleged, asserted, or it is said). He replied: I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: it is a bad riding-beast for a man (to say) za’ama (they asserted). Abu Dawud said : This Abu ‘Abd Allah is Hudhaifah.