Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What A Person Should Say When He Enters The Area Wherein He Relieves Himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5.
شعبہ، عبدالعزیز یعنی ابن صہیب سے، وہ سیدنا انس ؓ سے یہی (مذکورہ بالا) حدیث نقل کرتے ہیں: ان کے الفاظ یہ ہیں: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ .... » اور شعبہ کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے (سیدنا انس ؓ سے) ایک بار «أَعُوذُ بِاللَّهِ .... » کے الفاظ بیان کیے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1)محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم کی حفاظت حدیث کے سلسلے میں کاوشوں کی داد دی جانی چاہیے، دیکھیے! رسول اللہ ﷺ کے مبارک الفاظ نقل کرنے میں کس قدر امانت اور دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک استاد نے [اللهم إِنِّي أَعُوذُبِكَ] بیان کیا ہے تو دوسرے نے جو سنا اور یاد رکھا وہی پیش کردیا ہے، یعنی [اللهم إِنِّي] کی بجائے صرف [أعُوذُ بِاللہِ] اور محدث نے دونوں کے الفاظ الگ الگ بعینہ ویسے ہی یاد رکھے اور بیان کیے۔(2) اس حدیث میں تعلیم ہے کہ بیت الخلا خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں ہر موقع پر یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ (3) خیال رہے کہ یہ الفاظ بیت الخلا سے باہر ہی پڑھے جائیں کیونکہ بیت الخلا، اللہ کے ذکر کا مقام نہیں ہے۔ اگر جنگل میں ہو تو کپڑا اتارنے سے قبل یہ الفاظ کہے جائیں۔ (4) محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعا کے الفاظ میں [الخبث] کو اگر ’’با‘‘ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ [خبيث] (مذکر) کی جمع ہے۔ اور [خبائث، خبيثة] مؤنث کی۔ مراد ہے جنوں میں مذکر و مؤنث افراد۔ اور اگر [خبث] کی ’’با‘‘ کو ساکن پڑھا جائے تو معنی ہوگا:’’اے اللہ! میں تمام مکروہات، محرمات، برائیوں اور گندگیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
الحکم التفصیلی:
وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وقد أخرجاه في الصحيحين من طرق عن عبد العزيز. وأخرجه مسلم، وأبو عوا نة في صحيحه (1/216) ، والترمذي، والدارمي من طرق عن حماد بن زيد بلفظه.
وتابعه عليه هشيم عن عبد العزيز: أخرجه مسلم، وأحمد (3/99) ، وابن أبي شيبة (1/1) .
وسعيد بن زيد: عند البخاري في الأدب المفرد (ص 100) ، وإسناده صحيح على شرط مسلم.
وحماد بن سلمة: عند ابن السني في اليوم والليلة (رقم 16) ، وهو صحيح أيضا. وشعبة في إحدى الروايتين عنه؛ أخرجه البخاري في الدعوات ، وأبو عوانة وابن السني. وأما رواية عبد الوارث (1) ؛ فتابعه عليها إسماعيل ابن عُلَية: عند مسلم وابن ماجه، وأحمد (3/101) ، ورواه النسائي لكن بلفظ حماد بن زيد. وأما رواية شعبة باللفظين؛ فأخرجه الترمذي (1/10) ، وأخرجه أحمد
(3/282) باللفظ الآخر، والبخاري وغيره باللفظ الأول كما سبق. وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وقد أخرجاه في الصحيحين من طرق عن عبد العزيز.
وأخرجه مسلم، وأبو عوا نة في صحيحه (1/216) ، والترمذي، والدارمي من طرق عن حماد بن زيد بلفظه. وتابعه عليه هشيم عن عبد العزيز: أخرجه مسلم، وأحمد (3/99) ، وابن أبي
شيبة (1/1) .
وسعيد بن زيد: عند البخاري في الأدب المفرد (ص 100) ، وإسناده صحيح على شرط مسلم. وحماد بن سلمة: عند ابن السني في اليوم والليلة (رقم 16) ، وهو صحيح أيضا.
وشعبة في إحدى الروايتين عنه؛ أخرجه البخاري في الدعوات ، وأبو عوانة وابن السني. وأما رواية عبد الوارث (1) ؛ فتابعه عليها إسماعيل ابن عُلَية: عند مسلم وابن ماجه، وأحمد (3/101) ، ورواه النسائي لكن بلفظ حماد بن زيد. وأما رواية شعبة باللفظين؛ فأخرجه الترمذي (1/10) ، وأخرجه أحمد (3/282) باللفظ الآخر، والبخاري وغيره باللفظ الأول كما سبق.
وهو الصواب إن شاء الله تعالى؛ لاتفاق أكثر الرواة عليها كما رأيت، ولأن شعبة قد وافقه في إحدى الروايتين عنه، وهي التي اعتمد عليها البخاري؛ فلم يرو الأخرى؛ فالأخذ بها أولى وأحرى. وأيضا فقد قال الإمام أحمد:
حماد بن زيد أثبت من عبد الوارث وابن علية والثقفي وابن عيينة .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
شعبہ، عبدالعزیز یعنی ابن صہیب سے، وہ سیدنا انس ؓ سے یہی (مذکورہ بالا) حدیث نقل کرتے ہیں: ان کے الفاظ یہ ہیں: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ .... » اور شعبہ کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے (سیدنا انس ؓ سے) ایک بار «أَعُوذُ بِاللَّهِ .... » کے الفاظ بیان کیے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1)محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم کی حفاظت حدیث کے سلسلے میں کاوشوں کی داد دی جانی چاہیے، دیکھیے! رسول اللہ ﷺ کے مبارک الفاظ نقل کرنے میں کس قدر امانت اور دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک استاد نے [اللهم إِنِّي أَعُوذُبِكَ] بیان کیا ہے تو دوسرے نے جو سنا اور یاد رکھا وہی پیش کردیا ہے، یعنی [اللهم إِنِّي] کی بجائے صرف [أعُوذُ بِاللہِ] اور محدث نے دونوں کے الفاظ الگ الگ بعینہ ویسے ہی یاد رکھے اور بیان کیے۔(2) اس حدیث میں تعلیم ہے کہ بیت الخلا خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں ہر موقع پر یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ (3) خیال رہے کہ یہ الفاظ بیت الخلا سے باہر ہی پڑھے جائیں کیونکہ بیت الخلا، اللہ کے ذکر کا مقام نہیں ہے۔ اگر جنگل میں ہو تو کپڑا اتارنے سے قبل یہ الفاظ کہے جائیں۔ (4) محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعا کے الفاظ میں [الخبث] کو اگر ’’با‘‘ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ [خبيث] (مذکر) کی جمع ہے۔ اور [خبائث، خبيثة] مؤنث کی۔ مراد ہے جنوں میں مذکر و مؤنث افراد۔ اور اگر [خبث] کی ’’با‘‘ کو ساکن پڑھا جائے تو معنی ہوگا:’’اے اللہ! میں تمام مکروہات، محرمات، برائیوں اور گندگیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ» ہے ، یعنی ’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ شعبہ کا بیان ہے کہ عبدالعزیز نے ایک بار «أَعُوذُ بِاللَّهِ» ’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ کی بھی روایت کی ہے، اور وہیب نے عبدالعزیز بن صہیب سے جو روایت کی ہے اس میں «فليتَعوَّذ باللَّهِ» ’’چاہیئے کہ اللہ سے پناہ مانگے‘‘ کے الفاظ ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Another tradition on the authority of Anas (RA) has: “O Allah, I seek refuge in Thee". Shu’bah (RA) said: Anas (RA) sometimes reported the words: "I take refuge in Allah".