Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: What has been narrated about poetry)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5013.
جناب سعید بن مسیب ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ، سیدنا حسان ؓ کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ مسجد (مسجد نبوی) میں شعر پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمر ؓ نے انہیں تیز نظروں سے دیکھا تو انہوں نے جواب دیا۔ بلاشبہ میں اس (مسجد) میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس میں وہ عظیم ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے کہیں زیادہ افضل تھی۔
تشریح:
1۔ مسجد میں دین اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل اشعار کا پڑھنا جائز ہے۔ 2۔ مگر یہ حقیقت بھی برمحل ہے۔ کہ شرعی مزاج شعروشاعری سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعر پڑھنے کو ناپسنددیدگی کی نظر سے دیکھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے صالح متقی اور مصلح کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ 4۔ کسی صاحب فضل سے اگر کہیں فکر وعمل میں اختلافی صورت در پیش ہو تو اس کا جواب نہایت ادب واخلاق اور دلیل سے دیا جانا چاہیے۔ 5۔ کوئی ادنیٰ اگر شرعی دلیل وحجت میں قوی ہو تو اس کے قبول کرلینے میں کسی بھی صاحب فضل کو عارنہیں ہونی چاہیے۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
جناب سعید بن مسیب ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ، سیدنا حسان ؓ کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ مسجد (مسجد نبوی) میں شعر پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمر ؓ نے انہیں تیز نظروں سے دیکھا تو انہوں نے جواب دیا۔ بلاشبہ میں اس (مسجد) میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس میں وہ عظیم ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے کہیں زیادہ افضل تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مسجد میں دین اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل اشعار کا پڑھنا جائز ہے۔ 2۔ مگر یہ حقیقت بھی برمحل ہے۔ کہ شرعی مزاج شعروشاعری سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعر پڑھنے کو ناپسنددیدگی کی نظر سے دیکھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے صالح متقی اور مصلح کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ 4۔ کسی صاحب فضل سے اگر کہیں فکر وعمل میں اختلافی صورت در پیش ہو تو اس کا جواب نہایت ادب واخلاق اور دلیل سے دیا جانا چاہیے۔ 5۔ کوئی ادنیٰ اگر شرعی دلیل وحجت میں قوی ہو تو اس کے قبول کرلینے میں کسی بھی صاحب فضل کو عارنہیں ہونی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر ؓ حسان ؓ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو عمر ؓ نے انہیں گھور کر دیکھا، تو انہوں نے کہا: میں شعر پڑھتا تھا حالانکہ اس (مسجد) میں آپ سے بہتر شخص (نبی اکرم ﷺ) موجود ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hasan (RA): Sa'id said: 'Umar passed by Hassan when he was reciting verses in the mosque. He looked at him. Thereupon he said: I used to recite verses when there was present in it the one who was better than you (i.e. the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم).