Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Iqamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
510.
سیدنا ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار کہے جاتے تھے اور اقامت (تکبیر) کے ایک ایک بار۔ سوائے اس کے کہ مؤذن «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کہا کرتا تھا (یعنی دو بار) تو جب ہم اقامت سنتے تو وضو کر کے نماز کے لیے نکل پڑتے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے صرف یہی حدیث سنی ہے۔
تشریح:
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ عموما اقامت سے پہلے مسجد میں تشریف لا کر نماز کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مگر اتفاق سے کبھی کوئی چوک جاتا تو اقامت سنتے ہی جھوٹ وضو کر کے نماز کے لئے آجاتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وقال الحاكم: صحيح الاسناد ، ووافقه الذهبي، وقال النووي: إسناده صحيح . وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما . وقال المنذري: حسن . وأخرجه أبو عوانة في صحيحه ؛ دون قوله: غير أنه... إلخ. وقال ابن الجوزي: إسناده صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن يشار: ثنا محمد بن جعفر: ثنا شعبة قال: سمعت أبا جعفر يحدث عن مسلم أبي المثنى عن ابن عمر. vقال شعبة: لم أسمع عن أبي جعفر غير هذا الحديث. حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا أبو عامر- يعني: العَقَدِي- عبد الملك ابن عمرو: ثنا شعبة عن أبي جعفر- مؤذن مسجد العُرْيَانِ- قال: سمعت أبا المثنى - مؤذن مسجد الأكبر- يقول: سمعت ابن عمر... وساق الحديث.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير أبي جعفر- واسمه محمد بن إبراهيم بن مسلم بن مهران بن المثنى، ويقال في نسبه غير ذلك؛ وهو كوفي، ويقال: بصري-، وهو حسن الحديث على أقل الدرجات؛ قال ابن معين: ليس به بأس . وقال الدارقطني: بصري يحدث عن جده [يعني: مسلماً أبا المثنى] ولا بأس بهما . وقال ابن حبان في الثقات : كان يخطئ . وقال ابن عدي: ليس له من الحديث إلا اليسير؛ ومقدار ما له لا يتبين صدقه من كذبه . وقال الحافظ: صدوق يخطئ .
قلت: وحسن له الترمذي حديثاً في (الصلاة قبل العصر) ، سيأتي في الكتاب- إن شاء الله تعالى- (رقم 1154) . وقد زعم الحاكم- ووافقه الذهبي-: أن أبا جعفر هذا: هو عمير بن يزيد بن حبيب الخَطْمِي، كما يأتي! وهو وهم منهما؛ لأمور: أولأ: أن أبا جعفر الخظمي عميراً هذا؛ لم يذكروا في ترجمته أنه كان مؤذناً؛ بخلاف أبي جعفر محمد بن إبراهيم؛ فهو مؤذن مسجد (العريان) ، كما في رواية المصنف الثانية عن شعبة. ثانياً: أنهم لم يذكروا له رواية عن مسلم أبي المثنى؛ بل ذكروا ذلك لمحمد بن إبراهيم. ثالثاً: أن شعبة يقول: إنه لم يسمع من أبي جعفر غير هذا الحديث، وهو قد روى عن أبي جعفر الخطمي غير هذا؛ من ذلك: حديث توسل الأعمى بدعاء النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وهو عند الترمذي (2/277- طبع بولاق) وغيره. فدل على أن أبا جعفر راوي هذا الحديث: هو غير الخطمي. وأما مسلم أبو المثنى؛ فهو مسلم بن المثنى- ويقال: ابن مهران بن المثنى-؛ قال أبو زرعة: ثقة . وذكره ابن حبان في الثقات . وفي التقريب أنه: ثقة وهو جد أبي جعفر الذي روى هذا الحديث عنه، كما تقدم. والحديث أخرجه أحمد (2/85/رقم 5569) : حدثنا محمد بن جعفر... به ثم قال (رقم 5570) : حدثنا حجاج: حدثنا شعبة: سمعت أبا جعفر- مؤذن الغرْيَانِ في مسجد بني هلال- عن مسلم أبي المثنى- مؤذن مسجد الجامع-... فذكر هذا الحديث. وأخرجه الحاكم (1/195- 196) من طريق أحمد من الوجه الأول. وأخرجه الطيالسي (رقم 1923) : حدثنا شعبة قال: أخبرني أبو جعفر- وليس بالفَرَّاء- عن أبي المثنى... به. وخالفه وهب بن جرير فقال: ثنا شعبة عن أبي جعفر الفراء... به. أخرجه الطحاوي (1/79- 80) . وتابعه أبو النضر: ثنا شعبة عن أبي جعفر - يعني: الفراء-... به. أخرجه البيهقي (1/413- 414) ؛ ثم قال. رواه غندر[وهو محمد بن جعفر]وعثمان بن جَبَلَةَ عن شعبة عن أبي جعفر المدني عن مسلم بن المثنى. ورواه أبو عامر عن شعبة عن أبي جعفر مؤذن مسجد العريان قال: سمعت أبا المثنى مؤذن مسجد الأكبر . فقد اختلف الرواة في أبي جعفر هذا: فأبو عامر العقدي وحجاج قالا: إنه مؤذن العريان- أو العربان-؛ وهو كوفي أو بصري كما سبق. وقال وهب بن جرير وأبو النضر: إنه أبو جعفر الفَرَاء؛ وهو غير مؤذن العريان، \وهو كوفي أيضا، اختلف في اسمه. وأما الطيالسي؛ فنفى أن يكون هو. وقال غندر وعثمان بن جبلة عن شعبة: إنه أبو جعفر المدني؛ وفي الرواة بهذه
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار کہے جاتے تھے اور اقامت (تکبیر) کے ایک ایک بار۔ سوائے اس کے کہ مؤذن «قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة» کہا کرتا تھا (یعنی دو بار) تو جب ہم اقامت سنتے تو وضو کر کے نماز کے لیے نکل پڑتے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے صرف یہی حدیث سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ عموما اقامت سے پہلے مسجد میں تشریف لا کر نماز کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مگر اتفاق سے کبھی کوئی چوک جاتا تو اقامت سنتے ہی جھوٹ وضو کر کے نماز کے لئے آجاتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت کے کلمات سوائے: «قد قامت الصلاة» کے ایک ایک بار کہے جاتے تھے، چنانچہ جب ہم اقامت سنتے تو وضو کرتے پھر نماز کے لیے آتے تھے۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے ابو جعفر سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث نہیں سنی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ کبھی کبھی کا معاملہ تھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت لمبی ہوا کرتی تھی تو پہلی رکعت پا لینے کا یقین رہتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): The words of adhan were pronounced from the time of the Apostle of Allah (ﷺ) twice in pairs (i.e. four times) each, and the words of iqamah were pronounced once in pairs (twice each), except that the phrase "The time for prayer has come" would be pronounced twice. When we heard iqamah, we would perform ablution, and go out for prayer. Shu'bah said: I did not hear AbuJa'far narrating any other tradition except this one.