Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Iqamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
511.
جناب شیبہ، ابو جعفر مسجد عریان کے مؤذن سے اور وہ ابو مثنیٰ مسجد اکبر کے مؤذن سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے سنا اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
مسجد عریان اور مسجد اکبر غالبا ً کوفہ کی دو مسجد وں کے نام ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير أبي جعفر- واسمه محمد بن إبراهيم بن مسلم بن مهران بن المثنى، ويقال في نسبه غير ذلك؛ وهو كوفي، ويقال: بصري-، وهو حسن الحديث على أقل الدرجات؛ قال ابن معين: ليس به بأس . وقال الدارقطني: بصري يحدث عن جده [يعني: مسلماً أبا المثنى] ولا بأس بهما . وقال ابن حبان في الثقات : كان يخطئ . وقال ابن عدي: ليس له من الحديث إلا اليسير؛ ومقدار ما له لا يتبين صدقه من كذبه . وقال الحافظ: صدوق يخطئ .
قلت: وحسن له الترمذي حديثاً في (الصلاة قبل العصر) ، سيأتي في الكتاب- إن شاء الله تعالى- (رقم 1154) . وقد زعم الحاكم- ووافقه الذهبي-: أن أبا جعفر هذا: هو عمير بن يزيد بن حبيب الخَطْمِي، كما يأتي! وهو وهم منهما؛ لأمور: أولأ: أن أبا جعفر الخظمي عميراً هذا؛ لم يذكروا في ترجمته أنه كان مؤذناً؛ بخلاف أبي جعفر محمد بن إبراهيم؛ فهو مؤذن مسجد (العريان) ، كما في رواية المصنف الثانية عن شعبة. ثانياً: أنهم لم يذكروا له رواية عن مسلم أبي المثنى؛ بل ذكروا ذلك لمحمد بن إبراهيم. ثالثاً: أن شعبة يقول: إنه لم يسمع من أبي جعفر غير هذا الحديث، وهو قد روى عن أبي جعفر الخطمي غير هذا؛ من ذلك: حديث توسل الأعمى بدعاء النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ وهو عند الترمذي (2/277- طبع بولاق) وغيره. فدل على أن أبا جعفر راوي هذا الحديث: هو غير الخطمي. وأما مسلم أبو المثنى؛ فهو مسلم بن المثنى- ويقال: ابن مهران بن المثنى-؛ قال أبو زرعة: ثقة . وذكره ابن حبان في الثقات . وفي التقريب أنه: ثقة وهو جد أبي جعفر الذي روى هذا الحديث عنه، كما تقدم. والحديث أخرجه أحمد (2/85/رقم 5569) : حدثنا محمد بن جعفر... به ثم قال (رقم 5570) : حدثنا حجاج: حدثنا شعبة: سمعت أبا جعفر- مؤذن الغرْيَانِ في مسجد بني هلال- عن مسلم أبي المثنى- مؤذن مسجد الجامع-... فذكر هذا الحديث. وأخرجه الحاكم (1/195- 196) من طريق أحمد من الوجه الأول. وأخرجه الطيالسي (رقم 1923) : حدثنا شعبة قال: أخبرني أبو جعفر- وليس بالفَرَّاء- عن أبي المثنى... به. وخالفه وهب بن جرير فقال: ثنا شعبة عن أبي جعفر الفراء... به. أخرجه الطحاوي (1/79- 80) . وتابعه أبو النضر: ثنا شعبة عن أبي جعفر - يعني: الفراء-... به. أخرجه البيهقي (1/413- 414) ؛ ثم قال. رواه غندر[وهو محمد بن جعفر]وعثمان بن جَبَلَةَ عن شعبة عن أبي جعفر المدني عن مسلم بن المثنى. ورواه أبو عامر عن شعبة عن أبي جعفر مؤذن مسجد العريان قال: سمعت أبا المثنى مؤذن مسجد الأكبر . فقد اختلف الرواة في أبي جعفر هذا: فأبو عامر العقدي وحجاج قالا: إنه مؤذن العريان- أو العربان-؛ وهو كوفي أو بصري كما سبق. وقال وهب بن جرير وأبو النضر: إنه أبو جعفر الفَرَاء؛ وهو غير مؤذن العريان، وهو كوفي أيضا، اختلف في اسمه. وأما الطيالسي؛ فنفى أن يكون هو. وقال غندر وعثمان بن جبلة عن شعبة: إنه أبو جعفر المدني؛ وفي الرواة بهذه (2/440)
الكنية ثلاثة: أحدهم: أبو جعفر عمير بن يزيد الخطمي المدني، وقد سبق. ثانيهم: أبو جعفر القاري المدني الخزومي مولى عبد الله بن عياش بن أبي ربيعة، اختلفوا في اسمه أيضا، روى عن مولاه وأبي هريرة وابن عمر وغيرهم، وعنه مالك وغيره. والثالث: أبو جعفر الأنصاري المدتي المؤذن، روى عن أبي هريرة أيضا، وعنه يحيى بن أبي كثير فقط. وكل هؤلاء ثقات؛ غير هذا الأخير؛ فإنه مجهول. والراجح عندنا من ذلك: أنه مؤذن العريان؛ لاتفاق ثقتين عليه، وعدم الاختلاف فيه، ولأنهم لم يذكروا غيره في الرواة عن مسلم بن المثنى. والله أعلم. ثم إن الحديث أخرجه النسائي أيضا (1/103) ، والدارمي (1/270) ، والدارقطني (ص 88) ، والحاكم أيضا، والبيهقي من طرق أخرى عن شعبة عن أبي جعفر... به. ورواه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما - كما في نصب الراية (1/262) -، وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد؛ فإن أبا جعفر هذا: عمير بن يزيد بن حبيب الخطمي، وقد روى عنه سفيان الثوري وشعبة وحماد بن سلمة وغيرهم من أثمة المسلمين ! ووافقه الذهبي! وليس لدينا ما يدل على أن أبا جعفر هذا هو الخطمي؛ بل هو مؤذن العريان كما تقدم. وقال المنذري: حسن . والنووي (3/95) : إسناده صحيح . وللحديث طريق أخرى مختصراً: أخرجه أبو عوانة في صحيحه (1/329) ، والدارقطني من طريق سعيد بن المغيرة الصياد قال: ثنا عيسى بن يونس عن عبيد الله ابن عمر عن نافع عن ابن عمر. فال ابن الجوزي: وهذا إسناد صحيح: سعيد بن المغيرة؛ وثقه ابن حبان وغيره .
قلت: وممن وثقه أبو حاتم؛ كما في التلخيص (3/159) . وله عندهما شاهد من حديث أنس بن مالك قال: كان بلال يثني الأذان ويوتر الإقامة؛ إلا قوله: قد قامت الصلاة. وإسناده صحيح على شرطهما؛ وقد سبقت الإشارة إليه في منتهى الكلام على الحديث الذي قبله.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب شیبہ، ابو جعفر مسجد عریان کے مؤذن سے اور وہ ابو مثنیٰ مسجد اکبر کے مؤذن سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے سنا اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
مسجد عریان اور مسجد اکبر غالبا ً کوفہ کی دو مسجد وں کے نام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسجد عریان۱؎ کے مؤذن ابو جعفر کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مسجد کے مؤذن ابو مثنیٰ کو کہتے سنا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے سنا ہے، پھر انہوں نے اوپر والی حدیث پوری بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: عریان کوفہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has been narrated by Abu Ja’far, the mu’adhdhin of ‘Uryan mosque (at Kufah), from Abu al-Muthanna, the mu’adhdhin of masjid al-Akbar (at Kufah) on the authority of Ibn ‘Umar (RA). The rest of the tradition was transmitted in a like manner.