Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Calling The Adhan From Atop A Minaret)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
519.
بنو نجار کی ایک خاتون سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرا گھر مسجد کے اطراف کے گھروں میں سب سے اونچا تھا۔ سیدنا بلال ؓ فجر کی اذان اسی پر آ کر دیا کرتے تھے۔ وہ سحر کے وقت آ کر اس پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے جب صبح کو طلوع ہوتا دیکھتے تو انگڑائی لیتے اور کہتے: اے اللہ! میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش پر تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔ وہ بیان کرتیں ہیں کہ پھر اذان کہتے۔ قسم اللہ کی! مجھے نہیں معلوم کے بلال نے کسی رات بھی یہ کلمات چھوڑے ہوں۔
تشریح:
1۔ اونچی آواز اور اونچی جگہ سے اذان کہنا مستحب ہے مگر آج کل کے لاؤڈ سپیکروں نے یہ کمی پوری کردی ہے۔ 2۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اذان سے پہلے دعایئہ کلمات کسی طرح بھی اذان کا حصہ نہ تھے۔ بلکہ یہ عام طرح کی دعا ہوتی تھی۔ جس میں وہ کافی دیر سے مشغول ہوتے۔ اور صبح صادق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ قریش کی ہدایت کے لئے دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کو عربوں میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس مخالفت کی وجہ سے عام عرب بھی اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ جب اللہ نے اس قبیلے کو اسلام قبول کرنے کی توفیق سے نوازا تو پھر فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، كما قال الحافظ، وقال ابن دقيق العيد: هذا الخبر حسن ) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن أيوب: ثنا إبراهيم بن سعد عن محمد ابن إسحاق عن محمد بن جعفر بن الزبير عن عروة بن الزبير عن امرأة من بني النجار.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ غير أن ابن إسحاق مدلس، وقد عنعنه- ولذلك قال النووي في المجموع (3/106) : إسناده ضعيف . فقول الحافظ في الفتح (2/81) : وإسناده حسن ! غير حسن. ولو سكت عليه كما فعل في التلخيص ؛ (3/175) ؛ لكان أحسن. نعم؛ هو حسن لغيره، فقد وجدت له طريقاً أخرى، كما سنذكره إن شاء الله تعالى.. والحديث أخرجه البيهقي (1/425) من طريق المصنف رحمه الله تعالى. قلت: ثم وجدث الحديث في سيرة ابن هشام (2/20) : قال ابن إسحاق: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير... به. فاتصل السند- والحمد لله-، فهو حسن. وأما الطريق الآخر للحديث ؛ فهو ما أخرجه ابن سعد في الطبقات (8/307) قال: أخبرنا محمد بن عمر: ثني معاذ بن محمد عن يحيى بن عبد الله ابن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة قال: أخبرني من سمع النوارَ أم زيد بن ثابت تقول: كان بيتي أطول بيت حول المسجد؛ فكان بلال يؤذن فوقه- من أول ما أذن إلى أن بنى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مسجده-، فكان يؤذن- بعدُ- عدى ظهر المسجد؛ وقد رفع له شيء فوق ظهره. ومحمد بن عمر: هو الواقدي؛ ضعيف. وقال ابن دقيق في الإمام : هذا الخبر حسن (انظر تمام كلامه على الحديث فيما يأي من الكلام على الحديث (رقم 542/ص 35) ) . وفي الباب أحاديث أوردتها في الثمر المستطاب ؛ فلتراجع. وانظر المجموع أيضا.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
بنو نجار کی ایک خاتون سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میرا گھر مسجد کے اطراف کے گھروں میں سب سے اونچا تھا۔ سیدنا بلال ؓ فجر کی اذان اسی پر آ کر دیا کرتے تھے۔ وہ سحر کے وقت آ کر اس پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے جب صبح کو طلوع ہوتا دیکھتے تو انگڑائی لیتے اور کہتے: اے اللہ! میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش پر تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔ وہ بیان کرتیں ہیں کہ پھر اذان کہتے۔ قسم اللہ کی! مجھے نہیں معلوم کے بلال نے کسی رات بھی یہ کلمات چھوڑے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اونچی آواز اور اونچی جگہ سے اذان کہنا مستحب ہے مگر آج کل کے لاؤڈ سپیکروں نے یہ کمی پوری کردی ہے۔ 2۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اذان سے پہلے دعایئہ کلمات کسی طرح بھی اذان کا حصہ نہ تھے۔ بلکہ یہ عام طرح کی دعا ہوتی تھی۔ جس میں وہ کافی دیر سے مشغول ہوتے۔ اور صبح صادق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ قریش کی ہدایت کے لئے دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کو عربوں میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس مخالفت کی وجہ سے عام عرب بھی اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ جب اللہ نے اس قبیلے کو اسلام قبول کرنے کی توفیق سے نوازا تو پھر فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال ؓ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: ”اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔“ وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated A woman from Banu an-Najjar (RA): 'Urwah ibn az-Zubayr reported on the authority of a woman from Banu an-Najjar. She said: My house was the loftiest of all the houses around the mosque (of the Prophet (ﷺ) at Madinah). Bilal (RA) used to make a call to the morning prayer from it. He would come there before the break of dawn and wait for it. When he saw it, he would yawn and say: O Allah, I praise you and seek Your assistance for the Quraysh so that they might establish Thine religion. He then would make the call to prayer. She (the narrator) said: By Allah, I do not know whether he ever left saying these words on any night.