Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Washing The Siwak)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
52.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ مسواک کر رہے ہوتے تھے اور مجھے عنایت فرماتے کہ میں اسے دھو دوں، مگر میں پہلے اسے اپنے منہ میں پھیرتی پھر اسے دھو کر آپ ﷺ کو واپس دے دیتی۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) اس میں طہارت ونظافت کی شرعی اہمیت واضح ہے کہ آپ ﷺ اپنی مسواک کو بعد از استعمال دھولیا کرتے تھے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ آپ کے لعاب دہن سے تبرک حاصل کریں جس کی آپ نے توثیق فرمائی اور خیال رہے کہ یہ حصول تبرک صرف اور صرف نبی ﷺ ہی کی ذات سے مخصوص تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وحسنه النووي) . إسناده: ثنا محمد بن بشار: ثنا محمد بن عبد الله الأنصاري: ثنا عنبسة بن
سعيد الكوفي الحاسب: حدثني كثير عن عائشة. وهذا إسناد حسن؛ رجاله كلهم ثقات معروفون؛ غير كثير- وهو ابن عُبَيْد. رضيع عائشة-، وقد وثقه ابن حبان، وروى عنه جمع كثير من الثقات. والحديث قال النووي في المجموع (1/283) أنه: حديث حسن، رواه أبو داود بإسناد جيد . وسكت عليه الحافظ في التلخيص (1/381) ، واحتج به في الفتح (1/284) على استحباب غسل سواك الغير؛ إذا أراد أن يستعمله. والحديث رواه البيهقي من طريق المؤلف. وأخرج البخاري، والحاكم (1/145) ، وأحمد (6/200) من طريقين عن هشام بن عروة: أخبرتي أبي عن عائشة رضي الله عنها قالت: دخل عبد الرحمن بن أبي بكر ومعه سواك يستن به، فنظر إليه رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقلت له: أعطني هذا السواك يا عبد الرحمن! فأعظانيه. فقضمته ثمّ مَضَعتهُ، فأعطيته رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فاسق به وهو مستند إلى صدري. أخرجه البخاري من طريق إسماعيل قال: ثتي سليمان بن بلال قال: قال هشام.
فقال الحافظ: (فائدة) : رجال الإسناد مدنيون، وإسماعيل شيغ البخاري: هو ابن أبي أويس، ولم أره في شيء من الروايات من غير طريق البخاري عنه قلت: فقد خفيت علمِه رواية الحاكم هذه؛ وهو أخرجها من طريقين آخرين
عن إسماعيل بن أبي أويس: ثنا سليمان بن بلال: ثنا هشام... به. وأما أحمد؛ فرواه من طريق معمر عن هشام... به.
وأخرجه البيهقي (1/39) من طريقين آخرين عن إسماعيل... به.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ مسواک کر رہے ہوتے تھے اور مجھے عنایت فرماتے کہ میں اسے دھو دوں، مگر میں پہلے اسے اپنے منہ میں پھیرتی پھر اسے دھو کر آپ ﷺ کو واپس دے دیتی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) اس میں طہارت ونظافت کی شرعی اہمیت واضح ہے کہ آپ ﷺ اپنی مسواک کو بعد از استعمال دھولیا کرتے تھے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ آپ کے لعاب دہن سے تبرک حاصل کریں جس کی آپ نے توثیق فرمائی اور خیال رہے کہ یہ حصول تبرک صرف اور صرف نبی ﷺ ہی کی ذات سے مخصوص تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مسواک کر کے مجھے دھونے کے لیے دیتے تو میں خود اس سے مسواک شروع کر دیتی پھر اسے دھو کر آپ کو دے دیتی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): Ablution water and tooth-stick were placed by the side of the Prophet (ﷺ). When he got up during the night (for prayer), he relieved himself, then he used the tooth-stick.