Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Should Be Said When One Hears The Mu'adhdhin)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
524.
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! مؤذن ہم سے فضیلت لے جائیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ویسے ہی کہا کرو جیسے کہ وہ کہتے ہیں۔ جب تم اس سے فارغ ہو تو سوال کرو اور دعا مانگو، دیے جاؤ گے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه ابن حبان في صحيحه ) . إسناده: حدثنا ابن السَّرْح ومحمد بن سلمة قالا: ثنا ابن وهب عن حَيي عن أبي عبد الرحمن- يعني: الحبلِيَّ- عن عبد الله بن عمرو.
قلت: وهذا إسناد محتمل للتحسين، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير حيي - بضم أوله ويائين من تحت، الأولى مفتوحة-، وهو ابن عبد الله بن شُريح المَعَافِرِي المصري؛ وهو مختلف فيه. فقد جاء في ترحمته من التهذيب ما نصه: قال أحمد: أحاديثه مناكير. وقال البخاري: ديه نظر. وقال النسائي: ليس بالقوي. وقال ابن معين: ليس به بأس. وقال ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به إذا روى عنه ثقة... وذكره ابن حبان في الثقات .
قلت: وقال الذهبي في الميزان :
قلت: ما أنصفه ابن عدي؛ فإنه ساق في ترجمته عدة أحاديث من رواية ابن لهيعة عنه، كان ينبغي أن تكون في ترجمة ابن لهيعة . وقد ذكر الذهبي أن الترمذي حسن له، وكذا حسن له المنذري في الترغيب (1/211 و 214) ، والهيثمي في المجمع (2/254 و 10/122) ، وصحح له ابن حبان كما يأتي، والحاكم في المستدرك (1/321) ، ووافقه الذهبي. وقال الحافظ في التقريب : صدوق يهم .
قلت: فهو- إن شاء الله تعالى- حسن الحديث ما لم يظهر خطؤه؛ كغيره من الثقات الذين في حفظهم ضعف غير شديد، وقد مر منهم جماعة. والحديث أخرجه البيهقي (1/410) من طريق المصنف. وقال المنذري في مختصره : وأخرجه النسائي في اليوم والليلة ... ، وزاد في الترغيب (1/113) : وابن حبان في صحيحه . وليعلم أن الحديث يشهد لمعناه الحديثان المتقدمان في الباب، وحديث أنس في الباب الذي قبله، فهو صحيح. 537/ م- عن سعد بن أبي وقاص عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: من قال حين يسمع المؤذن: وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمد اً عبده ورسوله، رضيت بالله ربّاً، وبمحمد رسولاً، وبالاسلام ديناً؛ غُفِرَ له . (قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وبه أخرجه في صحيحه ، وكذا ابن حبان (1691) ، وأبو عوانة في صحيحه . وقال الحاكم: صحيح ، ووافقه الذهبي، وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا الليث عن الحُكَيْمِ بن عبد الله بن قيس عن عامر بن سعد بن أبي وقاص عن سعد بن أبي وقاص.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، ورجاله كلهم ثقات. والحديث أخرجه البيهقي (1/410) من طريق المصنف. وأخرجه بإسناده مسلم (2/5) . والنسائي (1/110) . ومن طريقه ابن السني (رقم 95) ، وأحمد (1/181) ، والترمذي (1/411- 412) ، وقال: حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث الليث بن سعد عن حُكَيْم بن عبد الله بن قيس . وأخرجه الحاكم (1/203) من طرق عن قتيبة... به، وقال: صحيح، ولم يخرجاه ! ووافقه الذهبي! وقد وهما في الاستدراك على مسلم؛ وقد أخرجه في صحيحه كما رأيت. ثم أخرجه مسلم، وأبو عوانة أيضا (1/340) ، وابن ماجه (1/245) ، والطحاوي (1/87) من طرق أخرى عن الليث... به.ؤ وفي كلام الترمذي السابق ما يشير إلى أن الليث تفرد به! وليس كذلك؛ فقد تابعه عبيد الله بن الغيرة: عند الطحاوي، وإسناده هكذا: ثنا روح بن الفرج قال: ثنا سعيد بن كثير بن عُفَيْر قال: ثنا يحيى بن أيوب عن عبيد الله بن المغيرة عن الحُكَيْمِ بن عبد الله بن قيس... فذكر مثده بإسناده؛ وزاد أنه قال: من قال حين يسمع المؤذن يتشهد... .
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات مترجم لهم في التهذيب . وفيه هذه الزيادة التي عَيَنَتْ مكان هذا القول، وهو بعد تشهد المؤذن، لا بعد فراغه من أذانه كما استظهره السندي؛ ففيه إشارة إلى عدم وجوب المتابعة في كلما يقوله المؤذن؛ كما ذكرته في الثمر المستطاب .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! مؤذن ہم سے فضیلت لے جائیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ویسے ہی کہا کرو جیسے کہ وہ کہتے ہیں۔ جب تم اس سے فارغ ہو تو سوال کرو اور دعا مانگو، دیے جاؤ گے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مؤذنوں کو ہم پر فضیلت حاصل ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتے ہیں (یعنی اذان کا جواب دو)، پھر جب تم اذان ختم کر لو تو (اللہ تعالیٰ سے) مانگو، تمہیں دیا جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): A man said: Apostle of Allah (ﷺ) , the mu'adhdhins excel us. The Apostle of Allah (ﷺ) said: Say (the same words) as they say, and when you come to the end, make a petition and that will be granted to you.