Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated Concerning The Supplication Made After The Adhan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
529.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اذان سن کر یہ (درج ذیل) دعا پڑھے تو قیامت کے روز اس کے لیے شفاعت لازم ہو گی «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ» ”اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد کو منزل وسیلہ اور فضیلت سے سرفراز فرما اور انہیں اس مقام محمود پر کھڑا کر جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔“
تشریح:
1۔ دعوت تامہ کامل پکار سے مراد توحید ورسالت کی پکار ہے (صلوة القائمة) قائم رہنے والی نماز سے مراد یہ ہے کہ کوئی ملت اس سے خالی نہیں رہی ہے۔ اور نہ کسی شریعت نے اسے منسوخ ہی کیا ہے۔ اور زمین واآسمان کے باقی رہنے تک یہ باقی رہے گی۔ (وسیلہ) جنت کی ایک منزل کا نام ہے۔ (مقام محمود) سے مراد وہ مقام ہے۔ جہاں رسول اللہ ﷺ میدان حشر میں مخوقات کے لئے شفاعت کی خاطر سجدہ ریز ہوں گے۔ اور یہ سجدہ سات دن رات تک طویل ہوگا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس سجدے میں اللہ کی حمدوثناء کروں گا۔ جو اس وقت مجھے اللہ الہام فرمائے گا۔ تب مجھے حکم ہوگا کہ سر اٹھائو۔ سفارش کرو قبول ہوگی۔ (صحیح بخاری۔ التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ۔وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣ ﴾)حدیث7440) (فضیلۃ سے مراد تمام مخلوقات سے بڑھ کر عالی مرتبہ 2۔ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا مستحق بن جانا بہت بڑے شرف کی بات ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اس کا حریص ہونا چاہیے۔ جو محض تمنائوں اور امیدوں سے ممکن نہیں اس کے لئے قول تصدیق اور عمل ضروری ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في صحيحه . وقال الترمذي: حديث صحيح حسن . ورواه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا علي بن عياش: ثنا شعيب بن أبي حمزة عن محمد بن المنكدرعن جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري. والحديث في مسند أحمد (3/354) ... بهذا السند. وبه أخرجه البخاري في صحيحه (2/75- 76) وفي أفعال للعباد . (ص 74) . وأخرجه النسائي (1/110- 111) ، وعنه ابن السني (رقم 93) ، والترمذي (1/413- 414) ، وابن ماجه (1/245) ، والطحاوي (1/87) ، والطبراني في المعجم الصغير (ص 140) ، والبيهقي (1/410) من طرق عن علي بن عياش... به. وقال الترمذي: حديث صحيح حسن غريب، لا نعلم أحداً رواه غير شعيب بن أبي حمزة عن محمد بن المنكدر ! وكذا قال الطبراني أنه: لم يروه عن محمد بن المنكدر إلا شعيب ! قال الحافظ: وقد توبع ابن المنكدر عليه عن جابر: أخرجه الطبراني في الأوسط من طريق أبي الزبير عن جابر نحوه .
قلت: والظاهر أنه يعني ما أخرجه أحمد (3/337) ، وابن السني (رقم 94) وغيرهما من طريق الحسن بن موسى: ثنا ابن لهيعة: ثنا أبو الزبير عن جابر مرفوعاً؛ بلفظ: من قال حين ينادي النادي: اللهم! ربَّ هذه الدعوة التامة وللصلاة القائمة! صَل على محمد، وارْضَ عنه رضاً لا تسخط بعده؛ استجاب الله دعوته . وهذا السياق مخالف لحديث الباب! والظاهر أن ذلك من ابن لهيعة؛ فقد كان سيئ الحفظ. فحديثه هذا يصلح شاهداً ومتابعة في الجملة. (تنبيهات) : الأول: زاد البيهقي من طريق محمد بن عوف عن علي بن عياش زيادتين: الأولى: اللهم! إني أساكك بحق هذه الدعوة ، والأخرى في آخره: إنك لا تخلف الميعاد ! وهاتان زيادتان شاذتان عندي؛ لأنهما لم تردا في سائر الطرق عن علي بن عياش، ولا في الطريق الأخرى عن جابر، اللهم إلا الزيادة الأخرى؛ فإنها مما ثبت للكشميهني في صحيح البخاري - كما في المقاصد الحسنة للسخاوي-، ولكنها شاذة أيضا؛ لأنها لم تثبت في غير رواية الكشميهني لـ الصحيح ! وكأنه لذلك لم يعرج عليها الحافظ في شرحه . ويؤيد ذلك: أنها لم ترد في الكتاب الآخر البخاري ألا وهو أفعال العباد ؛ مع أن إسناده فيهما واحدا الثاني: قال الحافظ في التلخيص (203) - وتبعه السخاوي في المقاصد -: وليس في شيء من طرق الحديث ذكر الدرجة الرقيعة .
قلت: قد وقعت في رواية ابن السني لحديث الباب؛ لكن الظاهر أنها مدرجة من قبل بعض النساخ؛ فقد علمت مما سبق في تخريج الحديث أنه عنده من طريق النسائي؛ وليست هي في سننه وقد وقعت أيضا في كتاب قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى؛ معزواً البخاري! وهو وهم فاحش- من قبل بعض النساخ حتماً-. ومن الغريب: أن السيد رشيد رضا رحمه الله تعالى مر عليها دون أي تنبيه! والمعصوم من عصمه الله وحده! الثالث: رواية المصنف والبخاري والجمهور: مقاماً محموداً بالتنكير. وأما النسائي والبيهقي فقالا: المقام المحمود بالتعريف؛ وهي رواية الطحاوي أيضا، والطبراني وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما ، كما في الفتح . والصحيح رواية البخاري ومن معه؛ لوجوه كثيرة؛ أوردها المحقق ابن القيم في بداخ الفوائد (4/105) ؛ فراجعها.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اذان سن کر یہ (درج ذیل) دعا پڑھے تو قیامت کے روز اس کے لیے شفاعت لازم ہو گی «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ» ”اے اللہ! اس کامل پکار اور قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد کو منزل وسیلہ اور فضیلت سے سرفراز فرما اور انہیں اس مقام محمود پر کھڑا کر جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ دعوت تامہ کامل پکار سے مراد توحید ورسالت کی پکار ہے (صلوة القائمة) قائم رہنے والی نماز سے مراد یہ ہے کہ کوئی ملت اس سے خالی نہیں رہی ہے۔ اور نہ کسی شریعت نے اسے منسوخ ہی کیا ہے۔ اور زمین واآسمان کے باقی رہنے تک یہ باقی رہے گی۔ (وسیلہ) جنت کی ایک منزل کا نام ہے۔ (مقام محمود) سے مراد وہ مقام ہے۔ جہاں رسول اللہ ﷺ میدان حشر میں مخوقات کے لئے شفاعت کی خاطر سجدہ ریز ہوں گے۔ اور یہ سجدہ سات دن رات تک طویل ہوگا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس سجدے میں اللہ کی حمدوثناء کروں گا۔ جو اس وقت مجھے اللہ الہام فرمائے گا۔ تب مجھے حکم ہوگا کہ سر اٹھائو۔ سفارش کرو قبول ہوگی۔ (صحیح بخاری۔ التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ۔وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴿٢٣ ﴾)حدیث7440) (فضیلۃ سے مراد تمام مخلوقات سے بڑھ کر عالی مرتبہ 2۔ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا مستحق بن جانا بہت بڑے شرف کی بات ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اس کا حریص ہونا چاہیے۔ جو محض تمنائوں اور امیدوں سے ممکن نہیں اس کے لئے قول تصدیق اور عمل ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ» ”اے اللہ! اس کامل دعا اور ہمیشہ قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد ﷺ کو وسیلہ۱؎ اور فضیلہ۲؎ عطا فر اور آپ کو مقام محمود۳؎ پر فائز فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔“ تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: وسیلہ جنت کے درجات میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا نام ہے۔ ۲؎: فضیلہ وہ اعلیٰ مرتبہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوقات پر حاصل ہو گا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ وسیلہ ہی کی تفسیر ہو۔ ۳؎: یہ وہ مقام ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائے گا اور اسی جگہ آپ وہ شفاعت عظمیٰ فرمائیں گے جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Jabir b. ‘Abd Allah (RA) reported the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: if anyone says when he hears the call to prayer: “O Allah! Lord of this perfect call and of the prayer which is established for all time, grant Muhammad (صلی اللہ علیہ وسلم) the Wasilah and Excellency, and raise him up in a praiseworthy position which Thou hast promised, he will be assured of my intercession.