Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Calling The Adhan Before Its Time)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
534.
شداد مولیٰ عیاض بن عامر، سیدنا بلال ؓ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ”جب تک فجر اس طرح نمایاں نہ ہو جایا کرے، اذان نہ کہا کرو۔“ اور آپ ﷺ نے اطراف عرض میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اشارہ فرمایا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ شداد مولیٰ عیاض نے سیدنا بلال ؓ کو نہیں پایا۔
تشریح:
1۔ فجر دو طرح کی ہوتی ہے پہلی کو فجر کاذب اور دوسری کو فجر صادق کہتے ہیں۔ صحیح ابن خزیمہ ار مستدرک حاکم میں ہے۔ کہ حضر ت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فجر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فجر جس میں کھانا حرام اور نماز (نماز فجر) حلال ہوتی ہے۔ اور دوسری وہ ہے جس میں نماز (نماز فجر) حرام اور کھانا (سحری کا) حلال ہوتا ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ وہ (فجر صادق) جس میں کھانا حرام ہوتا ہے افق میں طویل ہوتی ہے۔ اور دوسری ( فجرکاذب) یہ بھیڑیے کی دم کی طرح فضا میں بلند ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خذیمة، حدیث 356۔ مستدرك حاکم: 191/1) 2۔ نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان نہیں صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر غلطی سے تھوڑا سا فرق ہو تو اذان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن وقفہ اگر بہت زیادہ ہو تو ازان دہرائی جائے۔ اور پہلی کے متلق اعلان کردیا جائے۔ کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ نماز فجر کی اذان کے بارے میں کچھ اصحاب الحدیث کا میلان یہ ہے کہ یہ فجر کاذب ہی کہی جائے۔ تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جا سکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! تمھیں بلال کی اذان سحری کھانے سے ہرگز نہ ر وکے۔ بے شک وہ رات میں اذان کہتے ہیں۔ تاکہ تمہارا قیام کرنے والا متنبہ ہوجائے۔ اور سونے والا جاگ جائے (صحیح بخاری۔ الأذان باب الأذان قبل الفجر، حدیث: 621) اس کے قائل امام مالک۔ اوزاعی۔ شافعی۔ احمد۔ اسحاق۔ ہیں۔ (خطابی) مگر بخار ی مسلم کی یہ روایت حقیقت کو نکھارتی ہے۔ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔ اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ بلال رات میں اذان کہتے ہیں تو کھائو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ اور (یہ نابینا تھے) اور اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے۔ جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صبح ہوگئی صبح ہوگئی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 617۔ صحیح مسلم: حدیث: 380۔381) مقصد یہ ہے طلوع ہونے ہی پر فجر کی اذان کہنا راحج ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن) . إسناده: حدثنا زهير بن حرب: ثنا وكيع: ثنا جعفر بن بُرْقان عن شداد مولى عياض بن عامر عن بلال. قال أبو داود: وشداد مولى عياض لم يدرك بلالاً .
قلت: وكذا قال الهيثمي (3/152) ؛ فهو إسناد منقطع. وبذلك أعله البيهقي في المعرفة . وقال ابن القطان: وشداد أيضا مجهول، لا يعرف بغير رواية جعفر بن برقان عنه . نقله الزيلعي (1/284) . وقال الذهبي في ترجمة شداد: لا يعرف . وأما ابن حبان؛ فذكره في الثقات على قاعدته! وقال الحافظ: مقبول يرسل . وبقية رجال الإسناد ثقات رجال مسلم. لكن الحديث عندي حديث حسن؛ لأن له شاهداً من حديث أبي ذر رضي الله عنه أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال لبلال: أنت يا بلال! تؤذن إذا كان الصبح ساطعاً في السماء؛ فليس ذلك بالصبح؛ إنما الصبح هكذا معترضاً... الحديث؛ وقد ذكرناه بتمامه فيما مضى من الكلام على حديث ابن عمر في الباب (رقم 542) . أخرجه أحمد (5/172) ، والطحاوي (1/84) من طريق ابن لهيعة عن سالم ابن غَيْلان عن سليمان بن أبي عثمان عن عدي بن حاتم الحمصي عنه.] وله طريق أخرى عن ابن أبي عثمان؛ فقال أحمد (5/171) : ثنا يحيى بن غَيْلان: ثنا رشدين- يعني: ابن سعد-: حدثني عمرو بن الحارث. قال: وحدئني رشدين عن سالم بن غيلان التُجِيبي حدثه أن سليمان بن أبي عثمان حدثه... به وسليمان بن أبي عثمان؛ قال أبو حاتم: مجهول ؛ كما في لتعجيل و الميزان . وقد يشهد له أيضا حديث سَمُرَةَ: لا يمنعن من سحوركم أذان بلال، ولا بياض الأفق الذي هكذا؛ حتى يستطير . أخرجه مسلم وغيره، وسيأتي في الصيام (رقم 2031)
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
شداد مولیٰ عیاض بن عامر، سیدنا بلال ؓ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ”جب تک فجر اس طرح نمایاں نہ ہو جایا کرے، اذان نہ کہا کرو۔“ اور آپ ﷺ نے اطراف عرض میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اشارہ فرمایا۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ شداد مولیٰ عیاض نے سیدنا بلال ؓ کو نہیں پایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ فجر دو طرح کی ہوتی ہے پہلی کو فجر کاذب اور دوسری کو فجر صادق کہتے ہیں۔ صحیح ابن خزیمہ ار مستدرک حاکم میں ہے۔ کہ حضر ت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فجر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فجر جس میں کھانا حرام اور نماز (نماز فجر) حلال ہوتی ہے۔ اور دوسری وہ ہے جس میں نماز (نماز فجر) حرام اور کھانا (سحری کا) حلال ہوتا ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ وہ (فجر صادق) جس میں کھانا حرام ہوتا ہے افق میں طویل ہوتی ہے۔ اور دوسری ( فجرکاذب) یہ بھیڑیے کی دم کی طرح فضا میں بلند ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خذیمة، حدیث 356۔ مستدرك حاکم: 191/1) 2۔ نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان نہیں صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر غلطی سے تھوڑا سا فرق ہو تو اذان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن وقفہ اگر بہت زیادہ ہو تو ازان دہرائی جائے۔ اور پہلی کے متلق اعلان کردیا جائے۔ کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ نماز فجر کی اذان کے بارے میں کچھ اصحاب الحدیث کا میلان یہ ہے کہ یہ فجر کاذب ہی کہی جائے۔ تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جا سکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! تمھیں بلال کی اذان سحری کھانے سے ہرگز نہ ر وکے۔ بے شک وہ رات میں اذان کہتے ہیں۔ تاکہ تمہارا قیام کرنے والا متنبہ ہوجائے۔ اور سونے والا جاگ جائے (صحیح بخاری۔ الأذان باب الأذان قبل الفجر، حدیث: 621) اس کے قائل امام مالک۔ اوزاعی۔ شافعی۔ احمد۔ اسحاق۔ ہیں۔ (خطابی) مگر بخار ی مسلم کی یہ روایت حقیقت کو نکھارتی ہے۔ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔ اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ بلال رات میں اذان کہتے ہیں تو کھائو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ اور (یہ نابینا تھے) اور اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے۔ جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صبح ہوگئی صبح ہوگئی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 617۔ صحیح مسلم: حدیث: 380۔381) مقصد یہ ہے طلوع ہونے ہی پر فجر کی اذان کہنا راحج ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بلال ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم اذان نہ دیا کرو جب تک کہ فجر تمہارے لیے اس طرح واضح نہ ہو جائے۔“ اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ چوڑائی میں پھیلائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عیاض کے آزاد کردہ غلام شداد نے بلال ؓ کو نہیں پایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Bilal (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said to Bilal (RA): Do not call adhan until the dawn appears clearly to you in this way, stretching his hand in latitude. Abu Dawud said: Shaddad did not see Bilal.