Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Leaving The Masjid After The Adhan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
536.
جناب ابوالشعثاء بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ مؤذن نے عصر کی اذان کہی تو اس کے بعد ایک شخص مسجد سے نکل گیا، سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا: اس نے سیدنا ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔
تشریح:
اذان ہو جانے کے بعد معقول شرعی وجہ کے بغیر مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو، وابن حبان (2059) ، وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أنا سفيان عن إبراهيم بن المهاجر عن أبي الشعثاء. وهذا إسناد حسن، وهو على شرط مسلم؛ وفي إبراهيم بن المهاجر كلام لا ينزل حديثه عن رتبة الحسن، وقد مر الكلام فيه عند الكلام على إسناد الحديث رقم (331) ، ثم إنه لم يتفرد به- كما سنبينه-؛ فكان حديثه هذا صحيحاً. والحديث أخرجه أبو عوانة في صحيحه (2/8) ، والترمذي (1/398) ، وأحمد (2/471) من طرق أخرى عن سفيان... به. وقال الترمذي:ؤ حديث حسن صحيح . وأخرجه مسلم (2/124- 125) ، والدارمي (1/274) ، وابن ماجه (1/248) ، وأحمد أيضا (2/410- 416) من طرق أخرى عن ابن المهاجر... به وقد تابعه أشعث بن أبي الشعثاء عن أبيه: أخرجه مسلم، وأبو عوانة، والنسائي (1/111) ، وأحمد (2/506) من طرق عنه... به. ورواه شريك عن أشعث بزيادة: ثم قال: أمرنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إذا كنتم في المسجد، فنودي بالصلاة؛ فلا يخرج أحدكم حتى يصلي . أخرجه الطيالسي (رقم 2588) ، وأحمد (2/537) . وقال المنذري في الترغيب (1/115) : وإسناده صحيح ! وقال الهيثمي (2/5) : ورجاله رجال (الصحيح) ! كذا قالا! وذلك غير صحيح؛ لأن شريكاً قد تفرد بهذه الزيادة، وهو سيئ الحفظ، ولم يحتجَّ به مسلم؛ وإنما أخرج له متابعة؛ كما صرح به الذهبي في الميزان . وتابعه أيضا أبو صخرة جامع بن شداد عن أبي الشعثاء: أخرجه أبو عوانة والنسائي. وقد وجدت له طريقاً أخرى عن أبي هريرة؛ فقال الطبراني في معجمه الصغير (ص 168) : ثنا محمد بن الديني- فُسْتُقَةُ- البغدادي: ثنا سُرَيْجُ بن يونس: ثنا أبو حفص الآبَّارُ عن محمد بن جُحَادة عن أبي صالح عنه. وقال: لم يروه عن محمد بن جُحَادة إلا أبو حفص الآبَّار .
قلت: وهو ثقة حافظ؛ واسمه عمر بن عبد الرحمن. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير فستقة هذا، وهو لقبه، وهو محمد بن علي بن الفضل أبو العباس، وهو ثقة مات سنة (289) ، كما في تاريخ بغداد (3/61) . فهذا إسناد صحيح أيضا.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب ابوالشعثاء بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ مؤذن نے عصر کی اذان کہی تو اس کے بعد ایک شخص مسجد سے نکل گیا، سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا: اس نے سیدنا ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اذان ہو جانے کے بعد معقول شرعی وجہ کے بغیر مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ ایک شخص مؤذن کے عصر کی اذان دینے کے بعد نکل کر (مسجد سے باہر) گیا تو آپ نے کہا: اس نے ابوالقاسم ﷺ (رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے) کی نافرمانی کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اذان ہو جانے کے بعد معقول شرعی وجہ کے بغیر مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu al-Sha’tha said: We were sitting with Abu Hurairah (RA) in the mosque. A man went out of the mosque after the ADHAN for the afternoon prayer had been called. Abu Hurairah (RA) said: As regards this (man), he disobeyed Abu al-Qasim, the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم).