Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Tathwib)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
538.
جناب مجاہد کہتے ہیں کہ میں (ایک بار) سیدنا ابن عمر ؓ کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب کی (یعنی اذان کے بعد دوبارہ اعلان کیا) تو انہوں نے فرمایا مجھے یہاں سے لے چلو، بیشک یہ بدعت ہے۔
تشریح:
تثویب سے مراد ایک تو وہ کلمہ ہے جو فجر کی اذان میں کہا جاتا ہے۔ (الصلوة خیر من النوم) یہ حق اور مسنون ہے۔ مگر یہاں اس سے مراد وہ اعلانات وغیرہ ہیں۔ جو اذان ہو جانے کے بعد لوگوں کو مسجد میں بلانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے کچھ حیلہ بھی کیا جاتا ہے۔ مثلا کہیں درود شریف پڑھا جاتا ہے۔ اور کہیں تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ اور کہیں صاف سیدھا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ کہ جماعت میں اتنے منٹ باقی ہیں تو ایسی کوئی بھی صورت جائز نہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد بروقت نماز کے لئے حاضر ہوں۔ہاں مسجد کی طرف راہ چلتے ہوئے کسی سوئے ہوئے کو جگانا یا غافل اور ست لوگوں کو متنبہ کردینا۔ کہ اٹھو نماز کے لئے چلو۔ بلاشبہ جائز اور مطلوب ہے۔ یہ ممنوعہ تثویب میں شمار نہیں۔ :1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخر میں نابینا ہوگئے تھے اس لئے انھوں نے اپنے قائد سے کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو 2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بدعت اور بدعتیوں سے بہت نفرت کرتے تھے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتباع سنت کا شوق مثالی تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) . إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أنا سفيان: ثنا أبو يحيى القَتاتُ عن مجاهد.
قلت: وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي يحيى القتات؛ وهو ضعيف؛ ضعفه أحمد وابن معين- في رواية- والنسائي. وقال ابن معين- في رواية-: ثقة . وفصَّل أحمد رحمه الله، فقال- في رواية الأثرم عنه-: روى إسرائيل عن أبي يحيى القتات أحاديث مناكير جداً كثيرة. وأما حديث سفيان عنه فمُقَارَب .
قلت: وهذه الرواية- على أنها ليست حديثاً مرفوعاً- من رواية سفيان عنه، كما ترى؛ فهي حسنة الإسناد إن شاء الله تعالى. والحديث أخرجه البيهقي (1/424) من طريق المصنف. ورواه الترمذي (1/381) معلقاً، فقال: وروي عن مجاهد قال: دخلت مع عبد الله بن عمر مسجداً وقد أذن فيه، ونحن نريد أن نصلي فيه، فثوب المؤذن، فخرج عبد الله بن عمر من السجد، وقال: اخرج بنا من عند هذا المبتدع، ولم يُصَلِّ فيه
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب مجاہد کہتے ہیں کہ میں (ایک بار) سیدنا ابن عمر ؓ کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب کی (یعنی اذان کے بعد دوبارہ اعلان کیا) تو انہوں نے فرمایا مجھے یہاں سے لے چلو، بیشک یہ بدعت ہے۔
حدیث حاشیہ:
تثویب سے مراد ایک تو وہ کلمہ ہے جو فجر کی اذان میں کہا جاتا ہے۔ (الصلوة خیر من النوم) یہ حق اور مسنون ہے۔ مگر یہاں اس سے مراد وہ اعلانات وغیرہ ہیں۔ جو اذان ہو جانے کے بعد لوگوں کو مسجد میں بلانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے کچھ حیلہ بھی کیا جاتا ہے۔ مثلا کہیں درود شریف پڑھا جاتا ہے۔ اور کہیں تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ اور کہیں صاف سیدھا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ کہ جماعت میں اتنے منٹ باقی ہیں تو ایسی کوئی بھی صورت جائز نہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد بروقت نماز کے لئے حاضر ہوں۔ہاں مسجد کی طرف راہ چلتے ہوئے کسی سوئے ہوئے کو جگانا یا غافل اور ست لوگوں کو متنبہ کردینا۔ کہ اٹھو نماز کے لئے چلو۔ بلاشبہ جائز اور مطلوب ہے۔ یہ ممنوعہ تثویب میں شمار نہیں۔ :1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخر میں نابینا ہوگئے تھے اس لئے انھوں نے اپنے قائد سے کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو 2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بدعت اور بدعتیوں سے بہت نفرت کرتے تھے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتباع سنت کا شوق مثالی تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر ؓ کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب۱؎ کی، تو ابن عمر ؓ نے کہا: ہمیں یہاں سے لے چلو، اس لیے کہ یہ بدعت ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اذان کے بعد دوبارہ نماز کے لئے اعلان کرنے کا نام ’’تثویب‘‘ ہے، اور ’’تثویب‘‘ کا اطلاق اقامت پر بھی ہوتا ہے۔ تثویب سے مراد ایک تو وہ کلمہ ہے جو فجر کی اذان میں کہا جاتا ہے یعنی «الصلاة خير من النوم» یہ حق اور مسنون ہے، مگر یہاں اس سے مراد وہ اعلانات وغیرہ ہیں جو اذان ہو جانے کے بعد لوگوں کو مسجد میں بلانے کے لیے کہے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ حیلہ بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہیں درود شریف پڑھا جاتا ہے اور کہیں تلاوت قرآن کی جاتی ہے اور کہیں صاف سیدھا اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ جماعت میں اتنے منٹ باقی ہیں تو ایسی کوئی صورت بھی جائز نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے اپنے قائد سے کہا کہ مجھے یہاں سے لے چلو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بدعت اور بدعتیوں سے انتہائی نفرت کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اتباع سنت کا شوق مثالی تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): Mujahid reported: I was in the company of Ibn 'Umar (RA). A person invited the people for the noon or afternoon prayer (after the adhan had been called). He said: Go out with us (from this mosque) because this is an innovation (in religion).