باب: اگر اقامت کے بعد امام نہ پہنچا ہو تو مقتدی حضرات بیٹھ کر اس کا انتظار کریں
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: People Sitting After The Iqamah While Waiting For The Imam If He Has Not Come)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
539.
جناب عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے والد سے وہ نبی کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”جب اقامت کہہ دی جائے تو جب تک مجھے (آتا) نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہوا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا ایوب اور حجاج الصواف نے یحییٰ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ (یعنی صیغہ «عن» کے ساتھ) اور ہشام دستوائی نے کہا: یحییٰ نے مجھے لکھا۔ اور اسے معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے یحییٰ سے روایت کیا۔ ان دونوں نے اس روایت میں کہا: ”(اس وقت تک کھڑے نہ ہو) جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو اور آرام و سکون اختیار کرو۔“
تشریح:
معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ ﷺ کی آمد سے قبل بھی اقامت کہہ دی جاتی تھی۔ جب کہ آپ کو پہلے جماعت کا وقت ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وأبو عوانة فيؤ صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا مسلم بن إبراهيم وموسى بن إسماعيل قالا: ثنا أبان عن يحيى عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه. قال أبو داود: هكذا رواه أيوب وحجاج الصواف عن يحيى. وهشام الدستوائي قال: كتب إليَّ يحيى .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ ويحيى: هو ابن أبي كثير، وقد صرُّح بسماعه للحديث من عبد الله كما سنبينه. ومراد المصنف بهذا القول: أن أيوب وحجاجاً وافقا أبان في روايته الحديث عن يحيى بصيغة: (عن) . وأما هشام فقال في روايته: كتب إلي يحيى ؛ يعني: بهذا الحديث. وقد وصله من طريق هشام: الدارمي (1/289) ، وأحمد (5/309 و 310) ، والبخاري أيضا (2/94) . ووصله من طريق حجَّاج الصوَّاف: مسلم (2/101) ، وأبو عوانة (2/27) ، والنسائي (1/127- 128) - وقرن به هشاماً-، وأحمد (5/496 و 3؟ 3 و 304) . ووصله من طريق أيوب: أبو عوانة وحده. وأخرجه من طريق أبان: أحمد أيضا (305 و 357) . وأخرجه الشيخان، وأبو عوانة، والترمذي (2/487) ، والنسائي (1/111) ، والدارمي، وأحمد (308) من طرق أخرى عن يحيى... به؛ وصرح الدارمي في روايته بسماع يحيى من عبد الله بن أبي قتادة. وإسنادها صحيح على شرطهما. وقد ثبت ذلك أيضا عند أبي نعيم في الستخرج من وجه آخر عن هشام، كما في الفتح ؛ قال: فأُمِنَ بذلك تدليس يحيى . والحديث أخرجه البيهقي أيضا (2/20- 21) . وفي بعض الروايات المتقدمة زيادات في متن الحديث، وقد علَّق المصنف
(قلت: هي صحيحة. وقد وصلها البخاري وأبو عوانة في صحيحيهما ) . إسناده: علقها المصنف فقال: ورواه معاوية بن سلام وعلي بن المبارك عن يحيى وقالا فيه: حتى تروني وعليكم السكينة ... .
قلت: وقد وصله من طريق علي بن المبارك: البخاري (2/313) ، وأبو عوانة (2/28) ، وأحمد (5/310) - وقرن به شيبان-. وروايته- عند البخاري (2/95- 96) أيضا، وكذا أبي عوانة-: منفصلة. ووصله الإسماعيلي من طريق الوليد بن مسلم عن معاوية بن سلام وشيبان جميعاً عن يحيى؛ كما في الفتح (2/96) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عبداللہ بن ابی قتادہ اپنے والد سے وہ نبی کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”جب اقامت کہہ دی جائے تو جب تک مجھے (آتا) نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہوا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا ایوب اور حجاج الصواف نے یحییٰ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ (یعنی صیغہ «عن» کے ساتھ) اور ہشام دستوائی نے کہا: یحییٰ نے مجھے لکھا۔ اور اسے معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے یحییٰ سے روایت کیا۔ ان دونوں نے اس روایت میں کہا: ”(اس وقت تک کھڑے نہ ہو) جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو اور آرام و سکون اختیار کرو۔“
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ ﷺ کی آمد سے قبل بھی اقامت کہہ دی جاتی تھی۔ جب کہ آپ کو پہلے جماعت کا وقت ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے (آتا) نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہوا کرو“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے ایوب اور حجاج الصواف نے یحییٰ سے روایت کیا ہے۔ اور ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ مجھے یحییٰ نے یہ حدیث لکھ کر بھیجی، نیز اسے معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے بھی یحییٰ سے روایت کیا ہے، ان دونوں کی روایت میں ہے: ”یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو، اور سکون اور وقار کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Qatadah (RA) reported on the authority of his father: The prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said; When the Iqamah for prayer is pronounced, do not stand until you see me. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: this has been narrated by Ayyub and Hajjaj al-Sawwaf from Yahya and Hisham al-Duatawa’i in a similar way, saying: Yahya wrote to me (in this way). And this has been narrated by Mu’awiyah b. Sallam and ‘Ali b. al-Mubarak from Yahya: “Until you see me and show tranquility”.