باب: اگر اقامت کے بعد امام نہ پہنچا ہو تو مقتدی حضرات بیٹھ کر اس کا انتظار کریں
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: People Sitting After The Iqamah While Waiting For The Imam If He Has Not Come)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
545.
سالم ابوالنصر (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اقامت کہے جانے کے بعد مسجد میں حاضرین کو کم محسوس کرتے تو بیٹھ جاتے اور نماز نہ پڑھاتے اور جب دیکھتے کہ جمع ہو گئے ہیں، تو نماز پڑھا دیتے۔
تشریح:
ملحوظہ۔ حدیث مرسل ہے۔ یعنی تابعی (ابو الحضر) بلاواسطہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ صحیح روایات کی رو سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نبی ﷺ کا انتظار اذان کے بعد کرتے تھے نہ کہ تکبیر کے بعد۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لارساله، ولعنعنة ابن جريج. وقال المنذري: والحديث مرسل . على أن الصواب فيه: أن الجلوس كان بعد الأذان وقبل الاقامة، كما رواه البيهقي من طريق أخرى عن ابن جريج. وقوله في هذه الرواية: حين تقام الصلاه... وهم من بعض الرواة) . إسناده: حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوْهرِي: أنا أبو عاصم عن ابن جريج.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ وفيه علتان: الأ ولى: عنعنة ابن جريج، وهو مدلس. والأخرى: الإرسال؛ فإن سالماً أبا النضر تابعي. وقال النذري: والحديث مرسل .
قلت: لكن الرواية الاتية بعدها متصلة؛ لكن فيها ما سيأتي. وقال في عون المعبود : الاتصال بين الإقامة والصلاة ليس من المؤكّدات؛ بل يجوز الفصل بينهما لأمر حادث كما مر، لكن انتظار الإمام المأمومين وجلوسه في المسجد- لقلة المصلين- بعد إقامة الصلاة فلم يثبت إلا من هاتين الروايتين؛ لكن الرواية الأولى مرسلة، والثانية فيها أبو مسعود الزرقي، وهو مجهول الحال. ففي قلبي في صحة هذا المن شيء؛ وأظن الوهم قد دخل على بعض الرواة؛ فإنه لم يثبت من هدي النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه كان ينتظر بعد الإقامة . ثم ذكر للحديث- على افتراض صحته- معنيين، أعرضنا عن ذكرهما خشية الإطالة دون كبير فائدة؛ لأن المعنى الأول عنده فيه تكلف ظاهر، فلم يبْق إلاالمعنى الآخر، وهو أن قوله: تقام الصلاة... هي الإقامة المعروفة بالألفاظ المعروفة. وعلى هذا ظن أن هذا اللفظ: حين تقام الصلاة... وهم من بعض الرواة.وهو ظن في محله؛ فقد ورد الحديث بلفظ آخر يدل على ذلك، وهو قولنا: والحديث أخرجه البيهقي (2/20) من طريق عبد المجيد بن عبد العزيز عن ابن جريج: أخبرني موسى بن عقبة عن سالم أبي النضر: أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يخرج بعد النداء إلى السجد، فإذا رأى أهل المسجد قليلاً جلس، حتى يرى منهم جماعة، ثم يصلي، وكان إذا خرج فرأى جماعة أقام الصلاة. قال: وحدثتي موسى بن عقبة أيضاً عن نافع بن جُبيْرٍ عن مسعي بن الحكم الزرقِي عن علي بن أبي طالب... مثل هذا الحديث. ورواه أيضاً أبو عاصم عن ابن جريج.
قلت: وعبد المجيد بن عبد العزيز: هو ابن أبي روّادِ، وهو أثبت الناس في ابن جريج، كما قال الدارقطني- ونحوه ابن معين-، وروايته تدل على خطأ رواية أبي عاصم في الكتاب؛ فإن في هذه أن الخروج إلى السجد كان بعد النداء؛ أي: الأذان، وأن جلوسه كان بعد ذلك، ولم يذكر الإقامة فظاهره أن الجلوس كان قبلها، وأيد ذلك قوله في الشطر الآخر من الحديث: وكان إذا خرج فرأى جماعة أقام الصلاة. فإنه صريح في أنه كان يقيم الصلاة بعد اجتماع الجماعة؛ فدل ذلك على وهم رواية أبي عاصم. والله أعلم.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سالم ابوالنصر (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اقامت کہے جانے کے بعد مسجد میں حاضرین کو کم محسوس کرتے تو بیٹھ جاتے اور نماز نہ پڑھاتے اور جب دیکھتے کہ جمع ہو گئے ہیں، تو نماز پڑھا دیتے۔
حدیث حاشیہ:
ملحوظہ۔ حدیث مرسل ہے۔ یعنی تابعی (ابو الحضر) بلاواسطہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ شیخ البانی کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ صحیح روایات کی رو سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نبی ﷺ کا انتظار اذان کے بعد کرتے تھے نہ کہ تکبیر کے بعد۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم ابوالنضر کہتے ہیں جب نماز کی تکبیر کہہ دی جاتی اور رسول اللہ ﷺ دیکھتے کہ (مسجد میں) لوگ کم آئے ہیں تو آپ بیٹھ جاتے، نماز شروع نہیں کرتے اور جب دیکھتے کہ جماعت پوری ہے تو نماز پڑھاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu al-Nadr said: When the Iqamah was pronounced and the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) saw that they (the people) were small in number, he would sit down, and would not pray; but when he saw them (the people) large in number, he would pray.