Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Severity Of Not Attending The Congregational Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
552.
سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں نابینا آدمی ہوں، گھر دور ہے اور میرا قائد (ہاتھ پکڑ کر لانے والا) میری مدد نہیں کرتا، تو کیا میرے لیے رخصت ہے کہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا اذان سنتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تیرے لیے رخصت نہیں پاتا۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وقال النووي: إسناده صحيح أو حسن . ورواه ابن خزيمة في صحيحه ) . إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا حماد بن زيد عن عاصم بن بهلة عن أبي رَزِين عن ابن أم مكتوم.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أنه روى لعاصم مقروناً بغيره؛ وهو حسن الحديث كما سبق. وأبو رزين: اسمه مسعود بن مالك الآسَدي الكوفي، وقد أنكر ابن القطان سماعه من ابن أم مكتوم؛ كما في التهذيب . لكن قد ذكر أيضا أن أبا رزين هذا كان غلاماً على عهد عمر، وأن ابن أم مكتوم مات في آخر خلافة عمر. ومعنى هذا أن أبا رزين قد أدرك ابن أم مكتوم وهو غلام يعقل؛ فروايته عنه محمولة على الاتصال عند الجمهور؛ فإنكار ابن القطان لسماعه منه؛ لا ندري ما وجهه؟! فإن ثبت فالإسناد منقطع. لكن الحديث صحيح على كل حال؛ لما له من الطرق والشواهد، كما يأتي. والحديث أخرجه ابن ماجه (1/265) - عن زائدة-، وأحمد (3/423) - عنv شيبان- كلاهما عن عاصم... به. وقال النووي في المجموع (4/191) - بعد أن عزاه للمصنف : إسناده صحيح أو حسن . وأخرجه أيضا الطبراني في الصغير (ص 150) ، والحاكم (1/246- 247 و 3/635) ، والبيهقي (3/58) من طرق عن عاصم. ورواه ابن خزيمة في صحيحه ، كما في الترغيب (1/157) . وللحديث طريقان آخران: الأول: أخرجه الدارقطني (ص 146) ، وأحمد (3/423) من طريقين عن حُصَيْنِ بن عبد الرحمن عن عبد الله بن شداد بن الهاد عن ابن أم مكتوم... به؛ إلا أنه قال: أتسمع الإقامة؟ بدل: النداء . وهذا إسناد صحيح على شرطهما. وقال المنذري: إسناده جيد . وأخرجه الحاكم من طريق ثالثة عنه؛ وصححه، ووافقه الذهبي. وأما الطريق الأخرى؛ فتأتي في الكتاب عقب هذا. وله شاهد من حديث أبي هريرة في صحيح مسلم (2/124) ، و أبي عوانة (2/6) . وشواهد أخرى؛ تراجع في مجمع الزوائد (2/42- 43)
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں نابینا آدمی ہوں، گھر دور ہے اور میرا قائد (ہاتھ پکڑ کر لانے والا) میری مدد نہیں کرتا، تو کیا میرے لیے رخصت ہے کہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا اذان سنتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تیرے لیے رخصت نہیں پاتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ام مکتوم ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! میں نابینا آدمی ہوں، میرا گھر بھی (مسجد سے) دور ہے اور میری رہنمائی کرنے والا ایسا شخص ہے جو میرے لیے موزوں و مناسب نہیں، کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اذان سنتے ہو؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”(پھر تو) میں تمہارے لیے رخصت نہیں پاتا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr ibn Za'dah, Ibn Umm Maktum (RA): Ibn Umm Maktum (RA) asked the Prophet (ﷺ) saying: Apostle of Allah (ﷺ), I am a blind man, my house is far away (from the mosque), and I have a guide who does not follow me. Is it possible that permission be granted to me for saying prayer in my house? He asked: Do you hear summons (adhan)? He said: Yes. He said: I do not find any permission for you.