Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: The Severity Of Not Attending The Congregational Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
553.
سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے اور درندے بہت زیادہ ہیں۔ (کیا میرے لیے رخصت ہے کہ گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» (کی آواز) سنتے ہو تو ضرور آؤ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: قاسم جرمی نے بھی سفیان سے ایسے ہی روایت کیا ہے اور اس کی روایت میں «حي هلا» ”ضرور آؤ۔“ کے لفظ نہیں ہیں۔
تشریح:
یہ اور دیگر احادیث واضح دلیل ہیں۔ کہ نماز باجماعت واجب ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خوف کے موقع پر بھی صلاۃ خوف باجماعت ہی مشروع ہے۔ اور اصحاب اعذار کے لئے دلائل سے ثابت ہے۔ کہ جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت ضرور ہے۔ مگر اس فضیلت سے محروم رہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جناب عبد اللہ ابن مکتوم ؒ کو ر خصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔ جبکہ نبی کریم ﷺ نے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں جا کر ان کی جائے نماز کا افتتاح فرمایا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی شرعی عذر خوف۔ یا مرض کا استثناء موجود ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقال النويي: إسناده حسن ) . إسناده: حدثنا هارون بن زيد بن أبي الزرقاء: ثنا أبي: نا سفيان عن عبد الرحمن بن عابس عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن ابن أم مكتوم. قال أبو داود: وكذا رواه القاسم الجَرْمِيّ عن سفيان، ليس في حديثه: حي هلاً ... .
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هارون بن زيد بن أبي الزرقاء وأبيه؛ وهما ثقتان بلا خلاف. والحديث أخرجه البيهقي (3/58) من طريق المصنف. وبإسناده: أخرجه النسائي (1/136- 137) . وأخرجه الحاكم (1/246- 247) من طريق علي بن سهل الرملي: ثنا زيد بن أبي الزرقاء... به؛ إلا أنه سقط من روايته: عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، فصارت عنده هكذا: عن عبد الرحمن بن عابس عن ابن أم مكتوم! ولذلك قال: حديث صحيح الإسناد؛ إن كان ابن عابس سمع من ابن أم مكتوم ! قلت: لكن الحديث موصول برواية ابن زيد بن أبي الزرقاء؛ حيث ذكر بينهما: عبد الرحمن بن أبي ليلى. وقد تابعه على ذلث غيره عن غير أبيه: فأخرجه النسائي قال: وأخبرنيعبد الله بن محمد بن إسحاق قال: ثنا قاسم بن يزيد قال: ثنا سفيان... به. وهذا إسناد صحيح أيضا كالأول؛ والقاسم هذا: هو الجرمي الذي علقه المصنف عنه. هذا؛ وقد ذكر المنذري في مختصره (رقم 521) أن النسائي قال: وقد اختلف على ابن أبي ليلى في هذا الحديث: فرواه بععضهم عنه مرسلاً ! وليس هذا القول في سننه الصغرى ! فلعله في الكبرى له، أو في غيرها من كتبه. وللحديث طريقان آخران: أحدهما الذي قبله، وقد ذكِرَ الأخر عند الكلام عليه؛ فراجعه إن شئت.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے اور درندے بہت زیادہ ہیں۔ (کیا میرے لیے رخصت ہے کہ گھر میں نماز پڑھ لیا کروں؟) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» (کی آواز) سنتے ہو تو ضرور آؤ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: قاسم جرمی نے بھی سفیان سے ایسے ہی روایت کیا ہے اور اس کی روایت میں «حي هلا» ”ضرور آؤ۔“ کے لفظ نہیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ اور دیگر احادیث واضح دلیل ہیں۔ کہ نماز باجماعت واجب ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خوف کے موقع پر بھی صلاۃ خوف باجماعت ہی مشروع ہے۔ اور اصحاب اعذار کے لئے دلائل سے ثابت ہے۔ کہ جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت ضرور ہے۔ مگر اس فضیلت سے محروم رہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جناب عبد اللہ ابن مکتوم ؒ کو ر خصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔ جبکہ نبی کریم ﷺ نے عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں جا کر ان کی جائے نماز کا افتتاح فرمایا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی شرعی عذر خوف۔ یا مرض کا استثناء موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن ام مکتوم ؓ کہتے ہیں: اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» (یعنی اذان) سنتے ہو؟ تو (مسجد) آیا کرو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے قاسم جرمی نے سفیان سے روایت کیا ہے، ان کی روایت میں «حي هلا» (آیا کرو) کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Umm Maktum (RA): Apostle of Allah, there are many venomous creatures and wild beasts in Madinah (so allow me to pray in my house because I am blind). The Prophet (ﷺ) said: Do you hear the call, "Come to prayer", "Come to salvation"? (He said: Yes.) Then you must come.