Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated Regarding The Rewards Of Walking To The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
556.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جتنا مسجد سے دور ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔“
تشریح:
جو شخص جس قدرزیادہ قدم چل کر جائے گا۔ اور مشقت برداشت کرے گا۔ اس کو اسی قدر ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذ ا قال الحاكم، ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا يحيى عن ابن أبى ذئب عن عبد الرحمن بن مهران عن عبد الرحمن بن سعد عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ غير عبد الرحمن بن مهران- وهو المدني مولى بتي هاشم-؛ لم يذكروا في الرواة عنه غير ابن أبي ذئب؛ ومع ذلك ذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته! وقال أبو الفتح الأزدي: فيه نظر . وقال الحافظ في التقريب . مجهول . والحديث أخرجه الحاكم (1/208) ، ومن طريقه البيهقي (3/64- 65) من طريق أخرى عن مسدد... به. وأخرجه ابن ماجه (1/263) ، وأحمد (2/351) من طريقين آخرين عن ابن أبي ذئب... به. ثم قال الحاكم: هذا حديث صحيح رواته مدنيون ! ووافقه الذهبي! لكن الحديث صحيح لغيره؛ فإنه يشهد له حديث أبي موسى مرفوعاً: أعظم الناس أجراً في الصلاة: أبعدهم فأبعدهم ممشى... الحديث. أخرجه البخاري (2/109) ، ومسلم (2/130) ، وأبو عوانة (1/388 و 2/10) ، والبيهقي (3/64) . (فائدة) : وأما الحديث الذي أخرجه أحمد (5/399) من طريق بكر بن عمرو: أن أبا عبد الملك علي بن يزيد الدمشقي حدثه: أنه بلغه عن حذيفة ع النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه قال: إن فضل الدار القريبة- يعني: من المسجد- على الدار البعيدة؛ كفضل الغازي على القاعد : فهو حديث منكر جدّاً؛ وعلي بن يزيد هذا: هو الألهاني، وهو متروك؛ وقد رواه بلاغاً عن حذيفة، فبينهما مجهول. وقد أسقطه ابن لهيعة في روايته عن بكر بن عمرو. أحرجه أحمد أيضا (5/387) ، وهو من سوء حفظ ابن لهيعة.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔