Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: What Has Been Narrated About (The Blessings Of) Walking To The Masjid In Darkness)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
561.
سیدنا بریدہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”خوشخبری دو۔ قیامت کے روز کامل نور کی، ان لوگوں کو جو اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چل چل کے آتے ہیں۔“
تشریح:
اس میں آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ (نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ)(تحریم ۔80)ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دایئں دوڑتا ہوگا۔ کہیں گے۔ اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر دے۔ اور ہمیں بخش دے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه النووي) .
إسناده: حدثنا يحيى بن معبن: نا أبو عبيدة الحداد: نا إسماعيل أبو سليمان
الكَحال عن عبد الله بن أوس عن بريدة.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات غير إسماعيل أبي سليمان الكحال - وهو ابن سليمان-؛ قال أبو حاتم: صالح الحديث . واختلف فيه قول ابن حبان؛ فقد ذكره في الثقات ، وقال: يخطئ . وذكره في الضعفاء وقال: ينفرد عن المشاهير بمناكير . ولخص ذلك الحافط في التقريب ، فقال: صدوق يخطئ . فمثل هذا قد يكون حديثه حسناً؛ لا سيما إذا كان له شواهد؛ كهذا الحديث على ما يأتي. ولكن شيخه عبد الله بن أوس؛ لم يرو عنه غيره- كما في الميزان - ولذلك قال ابن القطان: مجهول الحال، ولا نعرف له رواية إلا بهذا الحديث من هذا الوجه . وأما ابن حبان؛ فأورده في الثقات على قاعدته! ولا أدري كيف وافقه الذهبي في هذه الترجمة؛ حيث قال- عقب قول القطان: مجهول -:
قلت: صدوق ! وهذا ما لا تساعد القواعد الحديثية على الأخذ به؛ ما دام لا يعرف إلا في هذا الحديث! ولذلك قال الحافظ فيه: لين الحديث . ومن ذلك تعلم أن قول المنذري في الترغيب (1/129) : ورجال إسناده ثقات ! ليس بصواب. وصنيعه في مختصر السن (رقم 529) أقرب إلى الصواب؛ حيث قال: وأخرجه الترمذي، وقال: هذا حديث غريب. وقال الدارقطني: تفرد به إسماعيل بن سليمان الضبي البصري الكحال عن عبد الله بن أوس . فقد نقل عن الترمذي تضعيفه للحديث ثم أقره؛ لكننا- على الرغم من ذلك كله- نرى أن الحديث حسن أو صحيح لغيره؛ نظراً لكثرة شواهده. والحديث أخرجه الترمذي أيضا (1/435) من طريق يحيى بن كثير أبي غسان العنبري عن إسماعيل الكحال... به، وقال ما نقله المنذري آنفاً عنه؛ إلا أنه زاد - كما في بعض النسخ الصحيحة-: ... من هذا الوجه . وفي هذا إشارة إلى أنه قد يصح من وجه آخر أو لوجوه أخر؛ وهذا ما ذهبنا إليه آنفاً. ولعله لذلك أورد 5 النووي رحمه الله في دارياض الصالحن (ص 404) - الذي قال في مقدمته (ص 3) -: وألتزم فيه أن لا أذكر إلا حديثاً صحيحاً . فالحديث عنده صحيح؛ وهذا هو الحق إن شاء الله تعالى. وقد أخرجه البيهقي أيضا (3/63- 64) ن طريق أخرى عن الكحال. وعزاه الحافظ في تخريج أحاديث الكشاف (ص 6/رقم 34) للبزار أيضا من طريق إسماعيل، ثم قال: وله شاهد من رواية ثابت عن أنس وسهل بن سعد رضي الله عنه: أخرجه ابن ماجه والحاكم. وأخرجه ابن حبان عن أبي الدرداء رضي الله عنه. والطبراني من رواية ابن عباس، وابن عمر، وزيد بن حارثة، وأبي موسى، وأبي أمامة رضي الله عنهم بأسانيد ضعيفة. وحديث زيد: في الكامل لابن عدي. وحديث أبي موسى: عند البزار. ورواه الطبراني في الأوسط من حديث عائشة في ترجمة (أحمد بن محمد بن صدقة) وقال: تفرد به قتادة بن الفضل عن الحسن بن علي البيروتي. ورواه الطيالسي وأبو يعلى من حديث أبي سعيد، وإسناده ضعيف أيضا. ورواه عمر بن شاهين في الترغيب - له- من حديث حارثة بن وهب الخزَاعي .
قلت: حديث أنس؛ علته أن فيه- عند ابن ماجه (1/262) ، والحاكم (1/212) ، والبيهقي أيضا (3/63) - سليمان بن داود- وهو ابن مسلم الصاغ-، وقد نسب عند غير ابن ماجه إلى جده؛ قال العقيلي: لا يتابع على حديثه ؛ يعني: هذا. وقال الحاكم: رواية مجهولة عن ثابت . وحديث سهل بن سعد: رواه البيهقي من طريق الحاكم، وقال: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي! وغمزه المنذري، فقال: كذا قال ! وبيانه أنه من رواية إبراهيم بن محمد الحلبي البصري: ثنا يحيى بن الحارث الشيرازي؛ وليسا من رجال الشيخين! والأول منهما؛ روى عنه ابن ماجه وجمع، وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال: يخطئ وفي التقريب : صدوق يخطئ . والآخر لا يعرف توثيقه إلا في رواية الحاكم لهذا الحديث؛ ففيها: أن إبراهيم هذا قال: آبَنا يحيى بن الحارث الشيرازي- وكان ثقة، وكان عبد الله بن داود يثتي عليه-. فهو في عداد المجهولين. وفي التقريب أنه: مقبول ؛ يعني: إذا توبع؛ وإلا فهو لين الحديث. ومن هذا يتبين أن قول البوصيري في الزوائد : إسناده حسن ! غير حسن؛ إلا أن يقصد أنه حسن لغيره؛ فهو حق. وأما حديث أبي الدرداء: فرواه الطبراني أيضا في الكبير بإسناد؛ قال المنذري: حسن ! وقال الهيثمي في المجمع (2/30) : ورجاله ثقات !
قلت: ويخطر في البال أن فيهم من تفرد بتوثيقه ابن حبان، كمثل من سبق؛ وإلا لما صرح الحافظ بتضعيف إسناده وهو يستحق التحسين، وهو عندنا أقعد في الحديث وأعلم به ممن حسنه ووثقه. وحديث ابن عباس؛ فيه- كما قال الهيثمي-: العباس بن عامر الضَّبي؛ ولم أجد من ترجمه، وبقية رجاله موثقون . وحديث ابن عمر؛ فيه داود بن الزبرقان، وهو ضعيف. وحديث زيد بن حارثة؛ فيه ابن لهيعة؛ وما ضعفه إلا من قبل حفظه، فيحتج به في الشواهد. وحديث أبي موسى؛ فيه محمد بن عبد الله بن عمير بن عبيد، وهو منكر الحديث. وحديث أبي أمامة؛ فيه رجل مجهول، وآخر لم يسَم. وحديث عائشة؛ فيه رجل لا يعرف. وحديث أبي سعيد. الخدري؛ فيه عبد الحكم بن عبد الله، وهو ضعيف. وهو عند الطيالسي في مسنده (رقم 2212) . وفي الباب أيضا عن أبي هريرة؛ قال المنذري- وتبعه الهيثمي-: رواه الطبراني في الأوسط بإسناد حسن . وبالجملة فالحديث يرتقي إلى درجة الصحة بهذه الشواهد الكثيرة، الني بلغت اثتي عشر شاهداً، وفيها ما هو حسن عند بعضهم، وفيها ما هو محتج به في الشواهد كما سبقت الإشارة إليه. والله تعالى أعلم. 49- باب ما جاء في الهَدْي في المشي إلى الصلاة
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا بریدہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”خوشخبری دو۔ قیامت کے روز کامل نور کی، ان لوگوں کو جو اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چل چل کے آتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
اس میں آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ (نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ)(تحریم ۔80)ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دایئں دوڑتا ہوگا۔ کہیں گے۔ اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر دے۔ اور ہمیں بخش دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اندھیری راتوں میں مسجدوں کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن پوری روشنی کی خوشخبری دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: The Prophet (ﷺ) said: Give good tidings to those who walk to the mosques in darkness for having a perfect light on the Day of Judgment.