Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: Severity In This Issue)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
569.
عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے مروی ہے انہوں نے بتلایا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ یہ صورت حال دیکھ لیتے جو عورتوں نے اپنائی ہے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ سے کہا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو اس سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا! ہاں۔
تشریح:
اگرچہ حقیقت واقع ہمارے اس دور میں ازحد ناگفتہ بہ ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان اور اللہ کی شریعت ہی راحج ہے۔ اگر عورتوں کی ان کی غلط کیشیوں کی بنا پر مسجدوں سے روکنا جائز ہو تو بازار یا دیگر مقامات سے روکنا اور زیادہ اولیٰ ہوگا۔ مگر صحیح یہی ہے کہ با پردہ ہوکر نکلیں۔ خوشبیو نہ لگائی ہوئی ہو۔ چلتے ہوئے پائوں نہ پٹکیں۔ اور آوازدار زیور نہ پہنے ہوں وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم ) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن يحيى بن سعيد عن عمرة بنت عبد الرحمن أنها أخبرته أن عائشة رضي الله عنها...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه البخاري (2/278- 282) من طريق أخرى عن مالك. وأخرجه مسلم (2/34) ، وأبو عوانة (2/59) ، والبيهقي (3/133) ، وأحمد (6/91) من طرف أخرى عن يحيى بن سعيد... به. وله طريق أخرى عن عمرة: في المسند (6/69- 70) : ثنا الحكم: ثنا عبد الرحمن بن أبي الرِّجَال فقال أبي: يذكره عن أمه عن عائشة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن تفلات . قالت عائشة: ولو رأى حالهن اليوم؛ منعهن! وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير عبد الرحمن بن أبي الرجال، وهو ثقة، فيه كلام قليل من قبل حفظه. والحكم: هو ابن موسى القنطري. وأم أبي الرجال: هي عمره بنت عبد الرحمن هذه. والحديث في الموطأ (1/203) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے مروی ہے انہوں نے بتلایا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ یہ صورت حال دیکھ لیتے جو عورتوں نے اپنائی ہے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ سے کہا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو اس سے روک دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا! ہاں۔
حدیث حاشیہ:
اگرچہ حقیقت واقع ہمارے اس دور میں ازحد ناگفتہ بہ ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان اور اللہ کی شریعت ہی راحج ہے۔ اگر عورتوں کی ان کی غلط کیشیوں کی بنا پر مسجدوں سے روکنا جائز ہو تو بازار یا دیگر مقامات سے روکنا اور زیادہ اولیٰ ہوگا۔ مگر صحیح یہی ہے کہ با پردہ ہوکر نکلیں۔ خوشبیو نہ لگائی ہوئی ہو۔ چلتے ہوئے پائوں نہ پٹکیں۔ اور آوازدار زیور نہ پہنے ہوں وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ اگر وہ چیزیں دیکھتے جو عورتیں کرنے لگی ہیں تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: میں نے عمرہ سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘A’ishah (RA), wife of the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), said: if the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had seen what the women have invented, he would have prevented them from visiting the mosque (for praying), as the women of the children of the Israel were prevented. Yahya (the narrator) said; I asked ‘Umrah ; were the women of Israel prevented? She said: Yes.