Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: On Having Two Congregations In The Masjid)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
574.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا، ایک آدمی اکیلے ہی نماز پڑھ رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا کوئی آدمی اس پر صدقہ نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے؟“
تشریح:
1۔ جامع ترمذی میں درج زیل حدیث کا عنوان ہے۔ باب ما جاء في الجماعة في مسجد قد صلي فیه مرة جس مسجد میں ایک بار (باجماعت) نماز ہوچکی ہو اس میں جماعت کا بیان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین کے علاوہ امام احمد واسحاق بن راہویہ یہ اس کے قائل ہیں۔ مگر کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ دیر سے آنے والے اپنی نماز اکیلے ہی پڑھیں۔ مثلا ابو سفیان۔ ابن مبارک۔ امام مالک۔ اور شافعی غالبا ان کی نظر اس پہلو پر ہے کہ لوگوں میں پہلی جماعت کی اہمیت قائم رہے اور وہ اس سے غافل نہ ہوں۔ بہرحال درج زیل صحیح حدیث سے دوسری جماعت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ 2۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ (ابن ابی شیبۃ بحوالہ نیل الاوطار:171/3) 3۔ اکیلے نماز پڑھنے والے کو اپنا امام بنا لینا جائز ہے۔ اگرچہ دوسرے نے اپنی نماز پڑھ لی ہو اور پہلے نے شروع میں امام بننے کی نیت نہ کی ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وقوّاه ابن حزم، وابن حجر، وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما . وقال الترمذي: حديث حسن ) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا وهيب عن سليمان الأسود عن أبي المتوكل عن أبي سعيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير سليمان الأسود- ويقال: ابن الأسود-؛ وهو الناجي أبو محمد البصري، وهو ثقة اتفاقاً. والحديث أخرجه الحاكم (2/209) من طريق أخرى عن موسى بن إسماعيل. وأخرجه الدارمي (1/318) ، والبيهقي (3/69) ، وأحمد (3/64) ، والطبراني في الصغير (ص 126 و 138) من طرق أخرى عن وهيب بن خالد... به. وقال الدارمي والطبراني: سليمان بن الأسود. وأخرجه الترمذي (1/427- 428) ، والبيهقي وأحمد (3/5 و 45) وابن حزم في المحلى (4/238) من طريق سعيد بن أبي عروبة قال: ثنى سليمان الناجي... به؛ وزاد في آخره: فقام رجل من القوم فصلى معه. ثم أخرجه أحمد (3/85) : ثنا علي بن عاصم: أنا سليمان الناجي... به بلفظ: قال: صلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بأصحابه الظهر، قال: فدخل رجل من أصحابه، فقال له النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ما حبسك يا فلان! عن الصلاة؟ . قال: فذكر شيئاً اعتلّ به، قال: فقام يصلي، فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... الحديث مثل رواية ابن أبي عروبة. وقال الهيثمي في المجمع (2/45) : رواه أحمد. وروى أبو داود والترمذي بعضه، ورجاله رجال (الصحيح) ! كذا قال! وعلي بن عاصم لم يرو له الشيخان، وهو صدوق، مع ضعف فيه من قبل حفظه. وسليمان الأسود لم يخرجا له أيضا كما علمت. ثم قال الترمذي: حديث حسن . وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم؛ سليمان الأسود هذا: هو سليمان بن سُحَيم، احتج به مسلم ! ووافقه الذهبي! وقد أخطآ؛ وإنما هو سليمان بن الأسود الناجي البصري، كما سبق في مجموع الروايات. والحديث أخرجه ابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما ؛ كما في نصب الراية (2/27) . وقوّاه ابن حزم؛ حيث قال- وهو يرد على خصومه-: لو ظفروا بمثل هذا؛ لطاروا به كل مطار ؛ يعني: أنه صحيح عنده لا مطعن فيه. والحافظ ابن حجر؛ فقال في التلخيص (4/299) : وقد ورد ما هو نص في إعادتها في جماعة لمن صلى جماعة على وجه مخصوص؛ وذلك في حديث أبي المتوكل عن أبي سعيد قال... .
قلت: فذكره. ثم روى البيهقي من طريق المصنف بإساده الصحيح عن الحسن في هذا فقام أبو بكر رضي الله عنه، فصلّى معه؛ وقد كان صلى مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وللحديث شواهد كثيرة أوردها الهيثمي في المجمع (2/45- 46) وفيها: وعن ثابت- لعله- عن أنس: أن رجلاً جاء وقد صلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقام يصلي وحده، فقال النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: من يتَّجِر على هذا فيصلي معه؟! . رواه الطبراني في الأوسط ، وفيه محمد بن الحسن؛ فإن كان ابن زبالة فهو ضعيف !
قلت: ليس به؛ وإنما هو محمد بن الحسن بن الزبير الأسدي الكوفي- لقبه: التلُ-: فقد أخرجه الدارقطني (1/103) من طريق عمر بن محمد بن الحسن الأسدي: ثنا أبي: نا حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس ... به. وهذا إسناد جيد، كما قال الزيلعي، وتبعه العسقلاني.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا، ایک آدمی اکیلے ہی نماز پڑھ رہا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا کوئی آدمی اس پر صدقہ نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے؟“
حدیث حاشیہ:
1۔ جامع ترمذی میں درج زیل حدیث کا عنوان ہے۔ باب ما جاء في الجماعة في مسجد قد صلي فیه مرة جس مسجد میں ایک بار (باجماعت) نماز ہوچکی ہو اس میں جماعت کا بیان صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین کے علاوہ امام احمد واسحاق بن راہویہ یہ اس کے قائل ہیں۔ مگر کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ دیر سے آنے والے اپنی نماز اکیلے ہی پڑھیں۔ مثلا ابو سفیان۔ ابن مبارک۔ امام مالک۔ اور شافعی غالبا ان کی نظر اس پہلو پر ہے کہ لوگوں میں پہلی جماعت کی اہمیت قائم رہے اور وہ اس سے غافل نہ ہوں۔ بہرحال درج زیل صحیح حدیث سے دوسری جماعت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ 2۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ (ابن ابی شیبۃ بحوالہ نیل الاوطار:171/3) 3۔ اکیلے نماز پڑھنے والے کو اپنا امام بنا لینا جائز ہے۔ اگرچہ دوسرے نے اپنی نماز پڑھ لی ہو اور پہلے نے شروع میں امام بننے کی نیت نہ کی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ”کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
جامع ترمذی میں درج ذیل حدیث کا عنوان ہے: جس مسجد میں ایک بار (باجماعت) نماز ہو چکی ہو اس میں جماعت کا بیان۔ درج ذیل صحیح حدیث سے دوسری جماعت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے (ابن ابی شیبہ)۔ اکیلے نماز پڑھنے والے کو اپنا امام بنا لینا جائز ہے۔ اگرچہ دوسرے نے اپنی نماز پڑھ لی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'id al-Khudri (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) saw a person praying alone. He said: Is there any man who may do good with this (man) and pray along with him.