Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: On Women Action As Imam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
592.
جناب عبدالرحمٰن بن خلاد سے روایت ہے انہوں نے سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے یہی حدیث بیان کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا جو اس کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ نے اسے (ام ورقہ کو) حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا تھا جو بہت بوڑھا تھا۔
تشریح:
1۔ یہ حدیث دلیل ہے کہاگر عورت اہلیت رکھتی ہو تو وہ عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ حضرت ام ورقہ کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ نے بھی فرض اور تراویح میں عورتوں کی امامت کرائی ہے۔ (التلخیص الجبیر) بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی امت کرا سکتی ہے۔ کیونکہ وہ بوڑھا موذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے۔ حدیث میں موذن کے نماز پڑھنے کا قطعا ً ذکر نہیں ہے۔ اس لئے غالب احتمال یہی ہے کہ وہ موذن ازان دے۔ کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔ اسلام کے مزاج اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمومی طرز عمل اسی بات کا موئد ہے نہ کہ احتمال کا دوسرا استدلال لفظ دار سے کرتے ہیں۔ کہ اس میں بیت سے زیادہ وسعت ہے۔ اور یہ محلے کے مفہوم میں ہے۔ یعنی نبی کریم ﷺ نے ان کو محلہ کی امامت کا حکم دیا تھا۔ جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہوں گے۔ لیکن یہ استدلال بھی احتمالا ت پر مبنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دار کا لفظ حویلی کےلئے خاندان اور قبیلے کےلئے اور گھر کے لئے سب ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ گھر کے ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ سنن دار قطنی کے الفاظ ہیں۔ (وتؤم نساءها) وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔ (سنن دارقطني۔ باب في ذکر الجماعة۔۔۔حدیث 1069) کے ان الفاظ سے (أن تؤم أهل دارها) کا مفہوم متعین ہو جاتا ہےکے اس سے مردانہ محلے اور حویلی کے لوگ ہیں۔ اور نہ اس میں مردوں کی شمولیت کا کوئی احتمال ہے۔ بلکہ اس سے مراد صرف اپنے گھر کی عورتیں ہیں۔اورعورت کا عورتوں کی امامت کرانا بالکل جائز ہے۔ اور ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 2۔ جہاد اوردیگر اہم ضرورت کے مواقع پر عورتوں مردوں کا علاج معالجہ کرسکتی ہیں۔ مگر اسلامی سترو حجاب کی پابندی ضروری ہے۔ 3۔ حکومت اسلامیہ اپنی رعیت کے جان ومال اور عزت کی محافظ ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ مجرمین کوپکڑنا اور قانون کے مطابق فوری سزا دینا ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں امن اور اللہ رحمت اترتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه من سبق ذكره) . إسناده: حدثنا الحسن بن حماد الحضرمي: ثنا محمد بن الفضيل عن الوليد ابن جميع عن عبد الرحمن بن خلاد عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث... بهذ الحديث.
قلت: وهذا إسناد رجاله موثقون؛ وقد سبق الكلام عليه في الذي قبله. والحديث أخرجه الدارقطني (154- 155) ، والحاكم (1/203) ، وعنه البيهقي من طرق أخرى عن الوليد... به؛ إلا أنه قرن مع عبد الرحمن بن خلاد: ليلى بنت مالك- وهي جدة الوليد بن جميع- كما سبق في الإسناد قبله. ورواه ابن نصر في قيام الليل (ص 94) عن الجدة وحدها. وكذلك رواه ابن خزيمة في صحيحه (1676) .
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب عبدالرحمٰن بن خلاد سے روایت ہے انہوں نے سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے یہی حدیث بیان کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا جو اس کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ نے اسے (ام ورقہ کو) حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا تھا جو بہت بوڑھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث دلیل ہے کہاگر عورت اہلیت رکھتی ہو تو وہ عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ حضرت ام ورقہ کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ نے بھی فرض اور تراویح میں عورتوں کی امامت کرائی ہے۔ (التلخیص الجبیر) بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی امت کرا سکتی ہے۔ کیونکہ وہ بوڑھا موذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے۔ حدیث میں موذن کے نماز پڑھنے کا قطعا ً ذکر نہیں ہے۔ اس لئے غالب احتمال یہی ہے کہ وہ موذن ازان دے۔ کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔ اسلام کے مزاج اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمومی طرز عمل اسی بات کا موئد ہے نہ کہ احتمال کا دوسرا استدلال لفظ دار سے کرتے ہیں۔ کہ اس میں بیت سے زیادہ وسعت ہے۔ اور یہ محلے کے مفہوم میں ہے۔ یعنی نبی کریم ﷺ نے ان کو محلہ کی امامت کا حکم دیا تھا۔ جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہوں گے۔ لیکن یہ استدلال بھی احتمالا ت پر مبنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دار کا لفظ حویلی کےلئے خاندان اور قبیلے کےلئے اور گھر کے لئے سب ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ گھر کے ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ سنن دار قطنی کے الفاظ ہیں۔ (وتؤم نساءها) وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔ (سنن دارقطني۔ باب في ذکر الجماعة۔۔۔حدیث 1069) کے ان الفاظ سے (أن تؤم أهل دارها) کا مفہوم متعین ہو جاتا ہےکے اس سے مردانہ محلے اور حویلی کے لوگ ہیں۔ اور نہ اس میں مردوں کی شمولیت کا کوئی احتمال ہے۔ بلکہ اس سے مراد صرف اپنے گھر کی عورتیں ہیں۔اورعورت کا عورتوں کی امامت کرانا بالکل جائز ہے۔ اور ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 2۔ جہاد اوردیگر اہم ضرورت کے مواقع پر عورتوں مردوں کا علاج معالجہ کرسکتی ہیں۔ مگر اسلامی سترو حجاب کی پابندی ضروری ہے۔ 3۔ حکومت اسلامیہ اپنی رعیت کے جان ومال اور عزت کی محافظ ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ مجرمین کوپکڑنا اور قانون کے مطابق فوری سزا دینا ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں امن اور اللہ رحمت اترتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ؓ سے یہی حدیث مروی ہے، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ ﷺ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has also been narrated through a different chain of transmitters by Umm Waraqah daughter of ‘Abd Allah b. al-Harith. The first version is complete. This version goes: The Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) used to visit her at her house. He appointed a mu’adhdhin to call adhan for her; and he commanded her to lead the inmates of her house in prayer. ‘Abd al-Rahman said: I saw her mu’adhdhin who was an old man.