Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What A Person Should Say When He Enters The Area Wherein He Relieves Himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
6.
سیدنا زید بن ارقم ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ بیت الخلا جنوں اور شیطانوں کے آنے جانے کی جگہیں ہیں، لہٰذا تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جانا چاہے تو یہ کلمات کہہ لیا کرے: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ» ’’میں خبیث جنوں اور جنیوں (کے شر) سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) یہ خبر امور غیبیہ میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اور تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ آپ کی دی ہوئی خبروں پر من وعن اور بلا چون وچرا ایمان لائیں۔ (2) معلوم ہوا کہ اس دعا کی پابندی سے انسان کئی طرح کی ظاہری وباطنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اور آج کل جو گھر گھر میں جنوں اور آسیب کے حملوں کا چرچا ہے اس کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ خود ناپاک رہتے ہیں یا اس سنت مطہرہ کے تارک ہوتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منها۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وكذلك قال الحاكم ووافقه الذهبي) . إسناده: ثنا عمرو بن مرزوق: نا شعبة عن قتادة عن النضر بن أنس عن زيد ابن أرقم. وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، فقد أخرج لعمرو بن مرزوق في صحيحه وبقية الرجال ثقات مشهورون من رجال الشيخين. وقد أخرجه الطيالسي في ادمسنده (رقم 679) : ثنا شعبة عن قتادة سمع النضر بن أنس به.
وهذا صحيح على شرطهما، وفيه فائدة؛ وهي تصريح قتادة بسماعه من النضر.
ومن هذا الوجه: رواه ابن ماجه والبيهقي، وأحمد (4/369 و 373) .
ولقتادة فيه شيخ آخر، رواه سعيد بن أبي عروبة عنه عن القاسم بن عوفالشيباني عن زيد بن أرقم به: أخرجه ابن ماجه والبيهقي، وأحمد (4/373) ، وابن أبي شيبة (1/1) .
وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم.
وأخرجه الحاكم (1/187) من الوجهين، ثمّ قال: كلا الإسنادين من شرط الصحيح ... ووافقه الذهبي.والحديث أشار إليه الترمذي في سننه (1/11) وأعله بقوله: في إسناده اضطراب: روى هشام الدستوائي وسعيد بن أبي عروبة عن قتادة.فقال سعيد: عن القاسم بن عوف الشيباني عن زيد بن أرقم. وقال هشام: عن قتادة عن زيد بن أرقم. ورواه شعبة ومعمر عن قتادة عن النضر بن أنس. فقال شعبة:عن زيد بن أرقم. وقال معمر: عن النضر بن أنس عن أبيه عن النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قال الترمذي: سألت محمداً- يعني: البخاري- عن هذا؟ فقال: يحتمل أن يكون قتادة روى عنهما جميعاً .
قلت: وهذا الذي أجاب به البخاري رحمه الله احتمالاً: هو الذي نجزم به ونطمئن إليه؛ وذلك أن قتادة ثقة حافظ ثبت، فليس بكثير عليه أن يكون له في حديث واحد إسنادان فأكثر؛ كما يقع ذلك كثيراً لأمثاله من الحفاظ، كالزهري وغيره، كما يشهد بذلك من له ممارسة واضطلاع بهذا الشأن. ولذلك فإننا لا نرى إعلال الترمذي بما ذكر صواباً! على أننا نقول: إن مجرد الاختلاف في إسناد حديث لا يستلزم إعلاله أو الحكم عليه بالاضطراب؛ ذلك لأن شرط المضطرب من الحديث أن تستوي الروايات، بحيث لا يمكن ترجيح بعضها على بعض بشيء من وجوه الترجيح؛ كحفظ راويها أو ضبطه أو كثرة صحبته، أوغير ذلك من الوجوه! فأما إذا ترجح لديتا إحدى الروايات على غيرها؛ فالحكم حينئذ لها، والحديث صحيح، ولا يطلق عليه وصف المضطرب، أوعلى الأقل: ليس له حكمه، كما أفاده ابن الصلاح في المقدمة .
وإذا كان لا بد من الترجيح بين الروايات السابقة؛ فرواية من قال: عن قتادة عن القاسم بن عوف عن زيد بن أرقم؛ هي أرجح لدينا؛ وذلك لأن سعيد بن أبي عروبة وهشاماًا لدستوائي أثبت الناس في الرواية عن قتادة، كما قال ابن أبي خيثمة وغيره. ثمّ إن رواية سعيد مقدمة على رواية هشام؛ لما فيها من الزيادة في الإسناد، وهي من ثقة، فيجب قبولها. على أن أبا داود الطيالسي قال في سعيد: كان أحفظ أصحاب قتادة .
وقد صرح الإمام البيهقي في رواية معمر- التي ذكرها الترمذي- أنها وهم؛ كما في سننه . وقتادة بصري وفيما حدث معمر- وهو ابن راشد- بالبصرة شيء من الضعف، كما ذكر الحافظ في التقريب ، فروايته لا تقاوم رواية أوثق الناس في قتادة عند الاختلاف، فلم يبق ما يقوم للمعارضة إلا رواية شعبه، وهو ثقة حافظ متقن؛ ولذلك فالرأي عندي ثبوت روايته مع رواية سعيد؛ كما جريت عليه في صدر الكلام. لكتي؛ أقول: إن كان لا بد من الترجيح؛ فرواية سعيد مقدمة عليه؛ ومعه متابع له في الجملة كما سبق بيانه؛ والله تعالى أعلم. ثمّ إن الحديث رواه بعض الضعفاء عن قتادة على وجه آخر بلفظ: هذه الحشوش محتضرة، فإذا دخل أحدكم الخلاء فليقل: بسم الله .أخرجه ابن السني (رقم 19) من طريق قَطَن بن نُسَيْر: ثنا عدي بن أبي عمارة الدارع قال: سمعت قتادة عن أنس مرفوعاً به. قال في الميزان - في ترجمة عدي هذا-: قال العقيلي: في حديثه اضطراب، وعنه قطن بن نسير . زاد الحافظ في اللسان : وذكره ابن حبان في الثقات . وقال: روى عنه القاسم بن عيسى الطائي والبصريون. قلت: ومن أغلاطه أنه روى عن قتادة عن أنس في القول عند دخول الخلاء. وإنما رواه قتادة عن النضر بن أنس عن زيد بن أرقم. وقيل: عن النضر بن أنس عن أبيه. والأول أصح .
(تنبيه) : قال الحافظ في التلخيص (1/461) - أن الحديث-: أخرجه أبو داود والنسائي وغيرهما ! وذكر في مكان آخر منه (530) أنه في السنن الأربعة ! وسكت عليه. وفي هذا الإطلاق تساهل أو ذهول، وذلك أن الحديث ليس عند النسائي في سننه الصغرى المعروف بـ المجتبى ، وإنما هو في سننه الكبرى ؛ كما قيّده صاحب عون المعبود ، كما أنه ليس عند الترمذي ثاني الأربعة، وإنما أشار إليه إشارة كما سبق أن ذكرنا. والله تعالى هو الموفق.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا زید بن ارقم ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ بیت الخلا جنوں اور شیطانوں کے آنے جانے کی جگہیں ہیں، لہٰذا تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جانا چاہے تو یہ کلمات کہہ لیا کرے: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ» ’’میں خبیث جنوں اور جنیوں (کے شر) سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) یہ خبر امور غیبیہ میں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے اور تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ آپ کی دی ہوئی خبروں پر من وعن اور بلا چون وچرا ایمان لائیں۔ (2) معلوم ہوا کہ اس دعا کی پابندی سے انسان کئی طرح کی ظاہری وباطنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اور آج کل جو گھر گھر میں جنوں اور آسیب کے حملوں کا چرچا ہے اس کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ خود ناپاک رہتے ہیں یا اس سنت مطہرہ کے تارک ہوتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منها۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کی یہ جگہیں جن اور شیطان کے موجود رہنے کی جگہیں ہیں، جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلا میں جائے تو یہ دعا پڑھے «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ» ’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ناپاک جن مردوں اور ناپاک جن عورتوں سے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zayd ibn Arqam (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: These privies are frequented by the jinns and devils. So when anyone amongst you goes there, he should say: "I seek refuge in Allah from male and female devils".