باب: جو کوئی کسی قوم کو نماز پڑھائے حالانکہ کہ خود ہی نماز پڑھ چکا ہو
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: On Someone Having Prayed And Then Leading Others For That Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
600.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو امامت کراتے۔
تشریح:
1۔ جب کوئی معقول سبب موجود ہو تو نماز کو دہرایا جاسکتا ہے مگر دوسری نفل ہوگی۔ جیسے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہوتی تھی۔ اور ایک بار حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک پیچھے رہ جانے والے کے ساتھ مل کر نماز پڑھی تھی۔ (دیکھئے سنن ابی دائود۔ حدیث 574) 2۔ امام نفل پڑھ رہا ہو تو مقتدی فرض کی نیت کرسکتاہے۔ یہ صورت بالعموم ر مضان میں نماز تراویح میں پیش آسکتی ہے۔ اور جائز ہے کہ دیر سے آنے والا امام کے پیچھے فرض کی نیت کرلے۔ امام دو رکعت پرسلام پھیر دے۔ تو وہ کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کرلے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه هو ومسلم وأبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وللحديث عند الأولين تتمة، وقد أخرجها المصنف فيما يأتي (رقم 756) ) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا سفيان عن عمرو بن دينار سمع جابر بن عبد الله يقول...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ وسفيان: هو ابن عيينة. والحديث أخرجه الإمام الشافعي في الأم (1/152- 153) ، وأحمد (3/308) قالا: ثنا سفيان... به، وله عندهما تتمة، قد أخرجها المصنف فيما يأتي في تخفيف الصلاة (رقم 756) من طريق أحمد. وأخرجه مسلم (2/41- 42) ، وأبو عوانة (2/156) ، والنسائي (1/134) ، والطحاوي (1/126) ، والبيهقي (3/85- 86) من طرق أخرى عن سفيان... به بتمامه. وأخرجه البخاري (2/153 و 10/424) ، ومسلم أيضا (2/42) ، وكذا أبو عوانة والترمذي (2/477) ، والدارمي (1/297) ، وللدارقطني (ص 102) ، والبيهقي أيضا، وأحمد (3/369) من طرق أخرى عن عمرو بن دينار... به مختصراً ومطولاً. وفي رواية لمسلم زيادة: العشاء الأخرة. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وزاد الدارقطني، وكذا الشافعي (11/53) ، والطحاوي (1/237- 238) من طريق ابن جريج: أخبرني عمرو بن دينار... به وزاد: هي له نافلة، ولهم فريضة. قال الحافظ (4/156) - وقد عزاها لعبد الرزاق أيضا-: وهو حديث صحيح، رجاله رجال الصحيح ، وقد صرح ابن جريج في رواية عبد الرزاق بسماعه فيه، فانتفت تهمة تدليسه. فقول ابن الجوزي: إنه لا يصح؛ مردود. وتعليل الطحاوي له بأن ابن عيينة ساقه عن عمرو أتم من سياق ابن جريج ولم يذكر هذه الزيادة؛ ليس بقادح في صحته ، لأن ابن جريج أسن وأجل من ابن عيينة، وأقدم أخذاً عن عمرو منه. ولو لم يكن كذلك؛ فهي زيادة من ثقة حافظ، ليست منافية لرواية من هو أحفظ منه، ولا أكثر عدداً، فلا معنى للتوقف في الحكم بصحتها. وأما رد الطحاوي لها باحتمال أن تكون مدرجة؛ فجوابه: أن الأصل عدم الإدرل حتى يثبت التفصيل، فمهما كان مضموماً إلى الحديث؛ فهو منه، ولا سيما إذا روي من وجهين. والأمر هنا كذلك؛ فإن الشافعي أخرجها من وجه آخر عن جابر متابعاً لعمرو بن دينار عنه .
قلت: ورواية الشافعي؛ قد مضت في الحديث المتقدم قبله.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو امامت کراتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جب کوئی معقول سبب موجود ہو تو نماز کو دہرایا جاسکتا ہے مگر دوسری نفل ہوگی۔ جیسے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہوتی تھی۔ اور ایک بار حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک پیچھے رہ جانے والے کے ساتھ مل کر نماز پڑھی تھی۔ (دیکھئے سنن ابی دائود۔ حدیث 574) 2۔ امام نفل پڑھ رہا ہو تو مقتدی فرض کی نیت کرسکتاہے۔ یہ صورت بالعموم ر مضان میں نماز تراویح میں پیش آسکتی ہے۔ اور جائز ہے کہ دیر سے آنے والا امام کے پیچھے فرض کی نیت کرلے۔ امام دو رکعت پرسلام پھیر دے۔ تو وہ کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کرلے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل ؓ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹ کر جاتے اور اپنی قوم کی امامت کرتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir b. ‘Abd Allah (RA) said: Mu’adh b. Jabal (RA) would pray along the prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), then go and lead his people in prayer.