Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: About The Imam Praying While Sitting Down)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
604.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔“ اور اس روایت میں اضافہ کیا ”اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ اضافہ «وإذا قرأ فأنصتوا» یعنی جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ محفوظ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ ابوخالد کا وہم ہے۔
تشریح:
اور دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔ کہ جہری نمازوں میں مقتدی کو خاموش رہنے کا یہ حکم فاتحہ کے علاوہ کی قراءت کے لئے ہے۔ اور مقتدی کو ہر صورت میں خاموشی کے ساتھ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال ابن حزم، وصححه أيضا مسلم في صحيحه ، ولم يخرجه، وأحمد وابن خزيمة. ويأتي شاهده من حديث أبي موسى (رقم 893 و 894) ) . إسناده: حدثنا محمد بن آدم المِصِّيصِيُّ: نا أبو خالد عن ابن عجلان عن زيد ابن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة. قال أبو داود: هذه الزيادة: وإذا قرأ فأنصتوا ؛ ليست بمحفوظة؛ الوهم عندنا من أبي خالد .
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات؛ وفي ابن عجلان كلام لا يضر، كما قد مضى مراراً. ثم استدركت فقلت: هو حسن الحديث ما لم يخالف من هو أحفظ منه وأكثر، وليس الأمر في هذا الحديث كذلك؛ فقد خالفه جماعة من الثقات؛ رووه عن أبي صالح؛ منهم: مصعب بن محمد كما تقدم، ومنهم: الأعمش: عند أبي عوانة (2/110) ، وابن ماجه (1/305) ، وأحمد (2/440) بإسناد صحيح على شرط الشيخين، كلاهما روياه عن أبي صالح... به بدون هذه الزيادة. وكذلك أخرجه البخاري (2/166 و 172) ، ومسلم (2/19 و 25) ، وأبو عوانة أيضا (2/109- 115) ، وابن ماجه (1/374) ، والدارمي (1/300) ، وأحمد (2/230 و 314 و 411 و 438) من طرق أخرى عن أبي هريرة... به دون الزيادة. فاتفاق هؤلاء الثقات على ترك هذه الزيادة؛ مما يجعل القلب لا يطمئن لصحتها بهذا الإسناد. ولذلك قال ابن أبي حاتم في العلل (رقم 465) : سمعت أبي- وذكر حديث أبي خالد الأحمر عن ابن عجلان عن زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: إنما جعل الإمام ليؤتم به؛ فإذا قرأ فأنصتوا -، قال أبي: ليس هذه الكلمة بالمحفوظ؛ وهو من تخاليط ابن عجلان، وقد رواه خارجة بن مصعب أيضا وتابع ابن عجلن؛ وخارجة أيضا ليس بالقوي . ورواه البيهقي (2/157) بإسناده عن ابن أبي حاتم ببعض اختصار، ثم قال: وقد رواه يحيى بن العلاء الرازي كما رواه؛ ويحيى بن العلاء متروك .
قلت: فلم يتابَع ابنُ عجلان على هذه الزيادة ممن يعْتَدّ به! وقد روى البيهقي بإسناد صحيح عن ابن معين أنه قال- في حديث ابن عجلان: إذا قرأ فأنصتوا -: ليس بشيء . فلو أن هذا الحديث لم يرد إلا من هذا الوجه؛ لكان نصيبه الكتاب الأخر، ولكن له شاهدا من حديث أبي قتادة بإسناد صحيح، سيأتي لفظه في التشهد (رقم 894) ؛ فهو حديث صحيح لغيره. ولعله لذلك صححه مَنْ صححه مِنَ الأئمة؛ فمنهم الإمام مسلم؛ فقال في صحيحه (2/15) : هو صحيح ، وسيأتي تمام كلامه في ذلث عند حديث أبي قتادة. ومنهم ابن حزم، فقال في المحلى (3/240) : هو حديث صحيح . ومنهم الإمام أحمد وابن خزيمة؛ كما نقله أبو الحسنات في إمام الكلام . وبعد؛ فقد علمت أن علة الحديث إنما هي من ابن عجلان، كما صرح بذلك أبو حاتم وابن معين كما سبق. وخالفهما المصنف رحمه الله، فقال كما تقدم: الوهم عندنا من أبي خالد ! وهذا خطأ منه رحمه الله؛ لأمرين ذكرهما المنذري في مختصره ؛ فقال: وفيما قاله نظر؛ فإن أبا خالد هذا: هو سليمان بن حيان الأحمر، وهو من الثقات الذين احتج البخاري ومسلم بحديثهم في صحيحيهما . ومع هذا؛ فلم ينفرد بهذه الزيادة، بل قد تابعه عليها أبو سعد محمد بن سد الأنصاري الأشهلي المدني نزيل بغداد، وقد سمع من ابن عجلان، وهو ثقة، وثقه يحيى بن معين ومحمد بن عبد الله المُخرَّمي والنسائي . والحديث أخرجه النسائي (1/146) ، وابن ماجه (1/279) ، والطحاوي (1/128) ، والدارقطني (ص 124) ، وأحمد (2/420) من طرق أخرى عن أبي خالد... به. وقد تابعه محمد بن سعد الأشهلي عن ابن عجلان: أخرجه النسائي، وعنه الدارقطني (ص 125) ، والخطيب في تاريخه (5/320) . وتابعه إسماعيل بن أبان؛ إلا أنه قال: عن محمد بن عجلان عن زيد بن أسلم ومصعب بن شُرَحْبِيل عن أبي صالح... به. أخرجه الدارقطني، والبيهقي (2/156) . وقال الدارقطني: إسماعيل بن أبان ضعيف . وتابعه محمد بن مُيَسر؛ إلا أنه قال: عن محمد بن عجلان عن أبيه عن أبي هريرة... به . أخرجه أحمد (2/376) ، والدارقطني، وقال: محمد بن ميسر ضعيف . والخلاصة: أن الوهم في الحديث من ابن عجلان لا من أبي خالد؛ لمتابعة محمد بن سعد الأنصاري الثقة؛ وأن الحديث صحيح لما سبق بيانه.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔“ اور اس روایت میں اضافہ کیا ”اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہ اضافہ «وإذا قرأ فأنصتوا» یعنی جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ محفوظ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ ابوخالد کا وہم ہے۔
حدیث حاشیہ:
اور دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے۔ کہ جہری نمازوں میں مقتدی کو خاموش رہنے کا یہ حکم فاتحہ کے علاوہ کی قراءت کے لئے ہے۔ اور مقتدی کو ہر صورت میں خاموشی کے ساتھ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس طریق سے بھی ابوہریرہ ؓ سے «إن جعل الإمام ليؤتم به» والی یہی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے، اس میں راوی نے «وإذا قرأ فأنصتوا» ”جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔“ کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «وإذا قرأ فأنصتوا» کا یہ اضافہ محفوظ نہیں ہے، ہمارے نزدیک ابوخالد کو یہ وہم ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: The imam is appointed only to be followed. This version adds: When he recites (the Qur'an), keep silent". Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The addition of the words "When he recites, keep silent" in this version are not guarded. The misunderstanding, according to us, is on the part of Abu Khalid (a narrator).