Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: About The Imam Praying While Sitting Down)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
607.
جناب حصین، یہ سعد بن معاذ کی اولاد میں سے تھے، سیدنا اسید بن حضیر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی امامت کرایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا امام بیمار ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: یہ حدیث متصل نہیں ہے۔
تشریح:
1۔ شیخ البانی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ لیکن یہ اور اس مفہوم کی دیگر احادیث اوائل دور کی ہیں۔ جس میں یہی حکم تھا کہ امام ومقتدی کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی صورت یکساں ہوں۔مگر نبی کریم ﷺ کی آخری نماز میں جو آپ نے بیٹھ کر پڑھائی اس میں صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ ان کی ناسخ ہے۔ 2۔ نبی ﷺ بشری عوارض سے دو چار ہوتے رہتے تھے۔ 3۔ نماز میں مقتدی کو انتقال ارکان میں امام سے پیچھے پیچھے رہنا واجب ہے۔ وہ کسی بھی رکن میں امام سے پہل نہ کریں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو وابن حبان (2119) وأبو عوانة في صحاحهم ، وتمامه عندهم ، فالتفت إلينا فرآنا قياماً؛ فأشار إلينا فقعدنا، فصلينا بصلاته قعوداً، فلمّا سلّم قال: إن كدتم آنفاً لتفعلون فعل فارس والروم؛ يقومون على ملوكهم وهم قعود، فلا تفعلوا! ائتموا بأئمتكم؛ إن صلى قائماً فصلّوا قياماً، وإن صلّى قاعداً فصلَوا قعوداً ؛ وقد مضى من طريق أخرى نحوه (رقم 615) ) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد ويزيد بن خالد بن مَوْهَب- المعنى- أن الليث حدثهم عن أبي الزبير عن جابر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ ويزيد بن خالد ليس من رجاله؛ وهو ثقة، وروايته متابعة. والحديث أخرجه أبو عوانة (2/108) من طريق المصنف. وأخرجه مسلم (2/19) ، والنسائي (1/128) عن قتيبة بن سعيد وحده. ومن طريقه: رواه البيهقي أيضا (2/261) . وأخرجه مسلم، وأبو عوانة، والبخاري في الأدب المفرد (ص 136- 137) ، وابن ماجه (1/374- 375) ، وأحمد (4/333) ، وابن خزيمة أيضا (486) من طرق أخرى عن الليث... به. وقد تابعه عبد الرحمن بن حميد الرؤاسي عن أبي الزبير... به نحوه. أخرجه مسلم، والنسائي (1/128) ، والطحاوي (1/234) ، وابن حبان (2120) .
(قلت: حديث صحيح، وقال الحاكم: صحيح الأسناد ، دوافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا عبدة بن عبد الله: نا زيد- يعني: ابن الحُبَاب- عن محمد ابن صالح: ثنى حُصَيْنٌ - من ولد سعد بن معاذ- عن أسيد بن حضير. قال أبو داود: وهذا الحديث ليس بمتصل .
قلت: وهذا إسناد رجاله موثقون؛ إلا أنه ليس بمتصل كما قال المصنف. وقال المنذري: وما قاله ظاهر؛ فإن حصيناً هذا إنما يروي عن التابعين، لا تحفظ له رواية عن الصحابة؛ سيما أسيد بن حضير؛ فإنه قديم الوفاة، توفي سنة عشرين، وقيل: إحدى وعشرين .
قلت: وقد وجدته موصولآ من وجه آخر عن الحصين: أخرجه الحاكم (3/289) من طريق محمد بن طلحة التيمي عن محمد بن الحصين بن عبد الرحمن بن سعد بن معاذ عن أبيه عن جده عن أسيد بن حضير: أنه كان تَآؤهَ، وكان يؤمنا، فصلى بنا قاعداً، فعاده رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقالوا: يا رسول الله! إن أسيداً إمامنا، وإنه مريض، وإنه صلى بنا قاعداً؟ فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فصلوا وراءه قعودأ؛ فإن الإمام ليؤتم به؛ فإذا صلى قاعداً فصلوا خلفه قعوداً . وقال الحاكم: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي!
قلت: ومحمد بن الحصين هذا؛ لم أجد من ترجمه! وقد ذكره الحافظ في الرواة عن أبيه الحصين. ثم رأيته في ثقات ابن حبان (9/33) وغيره. ولبعضه طريق أخرى: أخرجه الدارقطني (ص 152) عن محمود بن لَبِيد قال: كان أسيد بن حضير قد اشتكى عرق النسا، وكان لنا إماماً، وكان يخرج إليناً فيشير بلينا بيده؛ أن اجلسوا، فنجلس. فيصلي بنا جالساً ونحن جلوس. وفي سنده ضعف؛ لكن ذكره ابن حزم (3/75) من طريق أخرى مختصراً. وأورده الحافظ (2/145) أتم منه، وقال: رواه ابن المنذر بإسناد صحيح . وبالجملة؛ فالحديث- بهذه الطرق، وشواهده التي تقدمت في الباب- صحيح.
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
جناب حصین، یہ سعد بن معاذ کی اولاد میں سے تھے، سیدنا اسید بن حضیر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی امامت کرایا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا امام بیمار ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو۔“ امام ابوداؤد ؓ نے کہا: یہ حدیث متصل نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شیخ البانی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ لیکن یہ اور اس مفہوم کی دیگر احادیث اوائل دور کی ہیں۔ جس میں یہی حکم تھا کہ امام ومقتدی کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی صورت یکساں ہوں۔مگر نبی کریم ﷺ کی آخری نماز میں جو آپ نے بیٹھ کر پڑھائی اس میں صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ ان کی ناسخ ہے۔ 2۔ نبی ﷺ بشری عوارض سے دو چار ہوتے رہتے تھے۔ 3۔ نماز میں مقتدی کو انتقال ارکان میں امام سے پیچھے پیچھے رہنا واجب ہے۔ وہ کسی بھی رکن میں امام سے پہل نہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اسید بن حضیر ؓ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے، تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے امام بیمار ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم لوگ بھی بیٹھ کر پڑھو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث متصل نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Husain reported on the authority of the children of Sa’d b. Mu’adh that Usaid b. Hudair used to act as their Imam. (when he fell ill) the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) came to him inquiring about his illness. They said: Messenger of Allah, our Imam is ill. He said: When he prays sitting, pray sitting. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: The chain of this tradition is not continuous (muttasil).