Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Obligatory Status Of Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
61.
سیدنا علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم «الله اكبر» کہنا اور اس کی تحلیل «السلام علیکم» کہنا ہے۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل: (1) نماز کے لیے وضو لازمی اور شرط ہے ۔ اثنائے نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز چھوڑ کر وضو کیا جائے۔ (2) اللہ اکبر کہنے ہی سے نماز شروع ہوتی ہے اور اس دوران میں باتیں اور دوسرے اعمال حرام ہو جاتے ہیں، اس لیے اسے تکبیر تحریمہ کہا جاتا ہے۔ اور اس کا اختتام سلام پر ہوتا ہے اور اس طرح یہ پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الحاكم وابن السكن وكذا الحافظ، وحسّنه النووي، وأورده المقد سي في الأ حاديث المختارة ) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا وكيع عن سفيان عن ابن عَقيل عن محمد ابن الحنفية عن علي. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن عقيل- وهو عبد الله بن محمد بن عقيل-؛ وقد تكلم فيه من قِبل حفظه، وهو صدوق. وقد قال الذهبي: حديثه في مرتبة الحسن، كان أحمد وإسحاق يحتجان به . وقال الحافظ في التقريب : صدوق في حديثه لين، ويقال: تغير بأخرة . والحديث أعاده المصنف رحمه الله في باب الإمام يحدث بعدما يرفع رأسه من الصلاة ، وسوف لا نعيده في مختصرنا هذا؛ لأنه بهذا السند. والحديث أخرجه الترمذي أيضا؛ والدارمي وابن ماجه والطحاوي والدارقطني، والبيهقي (2/173 و 379) ، وأحمد (2/رقم 1006- 1072) ، والخطيب في تاريخه (10/197) من طرق عن سفيان... به. ورواه ابن أبي شيبة وإسحاق بن راهويه والبزار في مسانيدهم - كما في نصب الراية (1/307) -. ثمّ قال الترمذي: هذا الحديث أصح شيء في هذا الباب وأحسن، وعبد الله بن محمد بن عقيل صدوق، وقد تكلم فيه بعض أهل العلم من قِبل حفظه، وسمعت محمد ابن إسماعيل يقول: كان أحمد بن حنبل وإسحاق بن إبراهيم والحميدي يحتجون بحديث عبد الله بن محمد بن عقيل. قال محمد: وهو مقارب الحديث . وقال النووي في المجموع (3/289) : رواه أبو داود والترمذي وغيرهما بإسناد صحيح؛ إلا أن فيه عبد الله بن محمد ابن عقيل، قال الترمذي... 0 قلت: فذكر ما نقلناه عنه آنفاً. ونقل الزيلعي عنه أنه قال في الخلاصة : هو حديث حسن . وقال الحافظ: وصححه الحاكم وابن السكن . وقال في الفتح (2/257) : أخرجه أصحاب السنن بسند صحيح !كذا قال! ولكن الحديث له شواهد يرقى بها إلى درجة الصحيح، وقد أوردتها
في كتابنا الكبير في صفة صلاة النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من التكبير إلى التسليم ؛ ويراجع له نصب الراية وغيرها. وأما تصحيح الحاكم له؛ فلم أقف عليه! وهو إنما أورد الحديث في المستدرك (1/132) تعليقاً بدون تصحيح؛ فلعله صححه في بعض كتبه الأخرى. وأخرجه الضياء في المختارة (1/243) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کی کنجی وضو ہے، اس کی تحریم «الله اكبر» کہنا اور اس کی تحلیل «السلام علیکم» کہنا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1) نماز کے لیے وضو لازمی اور شرط ہے ۔ اثنائے نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز چھوڑ کر وضو کیا جائے۔ (2) اللہ اکبر کہنے ہی سے نماز شروع ہوتی ہے اور اس دوران میں باتیں اور دوسرے اعمال حرام ہو جاتے ہیں، اس لیے اسے تکبیر تحریمہ کہا جاتا ہے۔ اور اس کا اختتام سلام پر ہوتا ہے اور اس طرح یہ پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز کی کنجی طہارت، اس کی تحریم تکبیر کہنا ، اور تحلیل سلام پھیرنا ہے۔‘‘ ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : تحریم سے مراد ان سارے افعال کو حرام کرنا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نماز میں حرام کیا ہے، اسی طرح تحلیل سے مراد ان سارے افعال کو حلال کرنا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نماز سے باہر حلال کیا ہے، یہ حدیث جس طرح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کا دروازہ بند ہے جسے انسان وضو کے بغیر کھول نہیں سکتا اسی طرح اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ اکبر کے علاوہ کسی اور دوسرے جملہ سے تکبیر تحریمہ نہیں ہو سکتی اور سلام کے علاوہ آدمی کسی اور چیز کے ذریعہ نماز سے نکل نہیں سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn AbuTalib (RA): The key to prayer is purification; its beginning is takbir and its end is taslim.