باب: امام کا اپنی جگہ(اپنے مصلے) پر سنت یا نفل ادا کرنا
)
Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: On The Imam Praying Voluntary Prayers In His Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
616.
عطاء خراسانی، سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام نے جس جگہ نماز پڑھائی ہو، اسی جگہ (سنت یا نفل) نہ پڑھے، حتیٰ کہ وہاں سے ہٹ جائے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عطاء خراسانی نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو نہیں پایا۔
تشریح:
(1) یہ روایت کوسندا ضعیف ہے، لیکن یہ مسئلہ صحیح ہے، کیونکہ دیگر رویات سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ جیسے صحیح مسلم میں حضرت معاویہ سےمروی ہے: ’’جب تم جمعہ پڑھ لوتو اس کے بعد اسے دوسری نمازسے مت ملاؤ، حتی کہ بات کرلو وہاں سےنکل جاؤ۔،، اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی نماز کوکسی نماز کےساتھ نہ ملائیں، حتی کہ ہم گفتگو کرلیں یا اس جگہ سے نکل جائیں۔،، اس حدیث کےالفاظ میں عموم ہے جس سے مسئلہ زیربحث کے لیے استدلا ل کرنا صحیح ہے۔ ( صحیح مسلم, حدیث: 883) مزید تفصیل کےلیے دیکھیے: فتح الباری: 2؍ 335) (2) حکمت اس میں یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر سجدہ ثبت ہو۔ یہ مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے جیسے کہ آیت کریمہ (يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا)(الزلزال: 4)’’زمین اس دن خبریں بتائے گی۔،، کے تفسیر میں آتا ہے۔ (3) امام ابوداؤد کی سند میں انقطاع ہے مگر دیگر شواہد کی روشنی میں حدیث صحیح ہے۔ (شیخ البانی )
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
عطاء خراسانی، سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام نے جس جگہ نماز پڑھائی ہو، اسی جگہ (سنت یا نفل) نہ پڑھے، حتیٰ کہ وہاں سے ہٹ جائے۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عطاء خراسانی نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو نہیں پایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت کوسندا ضعیف ہے، لیکن یہ مسئلہ صحیح ہے، کیونکہ دیگر رویات سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ جیسے صحیح مسلم میں حضرت معاویہ سےمروی ہے: ’’جب تم جمعہ پڑھ لوتو اس کے بعد اسے دوسری نمازسے مت ملاؤ، حتی کہ بات کرلو وہاں سےنکل جاؤ۔،، اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی نماز کوکسی نماز کےساتھ نہ ملائیں، حتی کہ ہم گفتگو کرلیں یا اس جگہ سے نکل جائیں۔،، اس حدیث کےالفاظ میں عموم ہے جس سے مسئلہ زیربحث کے لیے استدلا ل کرنا صحیح ہے۔ ( صحیح مسلم, حدیث: 883) مزید تفصیل کےلیے دیکھیے: فتح الباری: 2؍ 335) (2) حکمت اس میں یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر سجدہ ثبت ہو۔ یہ مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے جیسے کہ آیت کریمہ (يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا)(الزلزال: 4)’’زمین اس دن خبریں بتائے گی۔،، کے تفسیر میں آتا ہے۔ (3) امام ابوداؤد کی سند میں انقطاع ہے مگر دیگر شواہد کی روشنی میں حدیث صحیح ہے۔ (شیخ البانی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”امام نے جس جگہ نماز پڑھائی ہو، اسی جگہ (سنت یا نفل) نہ پڑھے، حتیٰ کہ وہاں سے ہٹ جائے“ امام ابوداؤد کہتے ہیں: عطاء خراسانی کی مغیرہ بن شعبہ ؓ سے ملاقات نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
دیگر روایات سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ جیسے صحیح مسلم میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”جب تم جمعہ پڑھ لو تو اس کے بعد اسے دوسری نماز سے مت ملاؤ حتی کہ بات کر لو یا وہاں سے نکل جاؤز“ اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی نماز کو کسی نماز کے ساتھ نہ ملائیں، حتی کہ ہم گفتگو کر لیں یا اس جگہ سے نکل جائیںز“ حکمت اس میں یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر سجدہ ثبت ہو، یہ مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے جیسے کہ آیت کریمہ (يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا)”زمین اس دن اپنی خبریں بتائے گی۔“(سورة الزلزلة، ۴) کی تفسیر میں آتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn ‘Amr ibn al-'As: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: When the Imam completes the prayer and sits (for reciting tashahhud), and then becomes defiled (i.e. his ablution becomes void) before he speaks (to someone), his prayer becomes complete. And those who prayed behind him also complete the prayer.