Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Permissibility Of A Person Renewing His Wudu' Without Having Broken It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
62.
ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس تھا کہ ظہر کی اذان دی گئی تو انہوں نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر عصر کے لیے اذان ہوئی تو انہوں نے (دوبارہ) وضو کیا، میں نے انہیں کہا: (جب آپ بے وضو نہیں ہوئے تو نیا وضو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’جو شخص باوضو ہوتے ہوئے وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ روایت جناب مسدد کی ہے، جو (محمد بن یحییٰ کی روایت سے) زیادہ کامل ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت. إسناده ضعيف، وكذا قال الترمذي، وضعفه المنذري والعراقي والحافظ، وكذا النووي، ونقل الاتفاق على ضعفه) . إسناده: حدثنا محمد بن يحيي بن فارس: ثنا عبد الله بن يزيد المقرئ. (ح) وثنا مسدد: ثنا عيسى بن يونس قالا: ثنا عبد الرحمن بن زياد عن غُطيْف. قال أبو داود: وأنا لحديث ابن يحيى أتقن عن غطيف. وقال محمد: عن أبي غطيف الهذلي قال... . قلت: وفي نسخة: أضبط؛ بدل: أتقن. وهذا إسناد ضعيف؛ لأن مداره على الإفريقي- وهو ضعيف- عن غطيف- أو عن أبي غطيف- وهو مجهول لم يرو عنه غير الإفريقي. والحديث أخرجه البيهقي (1/162) من طريق المؤلف. وأخرجه الترمذي وابن ماجه من طريق الإفريقي... به. وقال الترمذي (1/87 و 91) : وهذا إسناد ضعيف . وضعفه المنذري في الترغيب (1/99 رقم 5) ، والعراقي في تخريج الإحياء (1/120) ، وكذا البيهقي، حيث قال عقبه: عبد الرحمن بن زياد الإفريقي غير قوي . وكأنه ذهل عن جهالة شيخه! ورواه الطحاوي (1/25) ... أتم منه. وضعفه الحافظ أيضاً في التلخيص (2/184) . وقال النووي في المجموع (1/470) : ضعيف متفق على ضعفه؛ وممن ضعفه الترمذي والبيهقي . (تنبيه) : وأما الحديث المشهور على الألسنة: الوضوء على الوضوء نور على نور ! فلا أصل له من كلام النبي عليه السلام، كما أفاده المنذري والعراقي. قال الأول: ولعله من كلام بعض السلف .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس تھا کہ ظہر کی اذان دی گئی تو انہوں نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر عصر کے لیے اذان ہوئی تو انہوں نے (دوبارہ) وضو کیا، میں نے انہیں کہا: (جب آپ بے وضو نہیں ہوئے تو نیا وضو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’جو شخص باوضو ہوتے ہوئے وضو کرے اس کیلئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ روایت جناب مسدد کی ہے، جو (محمد بن یحییٰ کی روایت سے) زیادہ کامل ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوغطیف ہذلی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس تھا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو آپ نے وضو کر کے نماز پڑھی، پھر عصر کی اذان ہوئی تو دوبارہ وضو کیا، میں نے ان سے پوچھا (اب نیا وضو کرنے کا کیا سبب ہے؟) انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’جو شخص وضو پر وضو کرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا۔‘‘ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مسدد کی روایت ہے اور یہ زیادہ مکمل ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): AbuGhutayf al-Hudhali reported: I was in the company of Ibn Umar (RA). When the call was made for the noon (zuhr) prayer, he performed ablution and said the prayer. When the call for the afternoon ('asr) prayer was made, he again performed ablution. Thus I asked him (about the reason of performing ablution). He replied: The Apostle of Allah (ﷺ) said: For a man who performs ablution in a state of purity, ten virtuous deeds will be recorded (in his favour). Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This is the tradition narrated by Musaddad, and it is more perfect.