Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What Impurifies Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
63.
حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے (ایسے) پانی کے متعلق پوچھا گیا جس پر جانور اور درندے وارد ہوتے ہیں ( مثلاً تالاب میں داخل ہو جاتے یا اس سے پیتے ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ (محمد) ابن العلاء کی روایت میں “محمد بن جعفر بن زبیر‘‘ آیا ہے جب کہ عثمان بن ابی شیبہ اور حسن بن علی کی روایت میں ’’محمد بن عباد بن جعفر‘‘ منقول ہوا ہے اور یہی (ثانی الذکر) صحیح ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي. وقال ابن منده: إنه على شرط مسلم، وصححه أيضا الطحاوي وابن خزيمة وابن حبان والنووي والحافظ) .، إسناده: حدثنا مممد بن العلاء وعثمان بن أبي شيبة والحسن بن علي وغيرهم قالوا: ثنا أبو أسامة عن الوليد بن كثير عن محمد بن جعفر بن. الزبير عن عبد الله بن عبد الله بن عمر. قال أبو داود: وهذا لفظ ابن العلاء. وقال عثمان والحسن بن علي: عن محمد بن عباد بن جعفر. قال أبو داود: وهو الصواب! كذا قال المصنف رحمه الله! وخالفه غيره فقال: الصواب: عن محمد بن جعفر بن الزبير.
وسيأتي تحقيق الكلام في ذلك، وأن الراجح لدينا صواب الروايتين. وعلى كل حال؛ فالإسناد صحيح، رجاله- على الوجهين- ثقات رجال الشيخين. والحديث أخرجه النسائي والدارمي والطحاوي والدارقطني والحاكم، والبيهقي (2/260) من طرق عن أبي أسامة حماد بن أسامة... به مثل رواية ابن العلاء. ثمّ أخرجه الدارقطني والحاكم والبيهقي من طرق أخرى كثيرة عن أبي أسامة... به؛ إلا أنهم قالوا: عن محمد بن عباد بن جعفر. وصوّب هذه الرواية المؤلف كما سلف. وخالفه أبو حاتم الرازي فرجح الأولى، فقال ابنه عبد الرحمن في العلل (1/44/رقم 96) - بعد أن ساق الحديث على الوجه الثاني-: فقال أبي: محمد بن عباد بن جعفر ثقة، ومحمد بن جعفر بن الزبير ثقة، والحديث لمحمد بن جعفر بن الزبير أشبه . وقال ابن منده- كما فى نصب الراية (1/106) -: إن هذا هو الصواب؛ لأنّ عيسى بن يونس رواه عن الوليد بن كثير عن محمد بن جعفر بن الزبير عن عبيد الله بن عبد الله بن عمر . وصحح الروايتين: الدارقطني والحاكم والبيهقي؛ بدليل ما أخرجوه من طريق شعيب بن أيوب: ثنا أبو أسامة: ثنا الوليد بن كثير عن محمد بن جعفر بن الزبير ومحمد بن عباد بن جعفر عن عبد الله بن عبد الله بن عمر... قال الحاكم - ووافقه الآخران على معناه-: قد ظهر بهذه الرواية صحة الحديث، وظهر أن أبا أسامة ساق الحديث عن الوليد بن كثير عنهما جميعاً؛ فإن شعيب بن أيوب الصرِيفيني ثقة مأمون، وكذلك الطريق له . وبذلك يزول الاضطراب الذي به أعل بعضهم الحديث فلا تلتفت إليه. والحديث صححه الحاكم على شرطهما، ووافقه الذهبي. وقال ابن منده: إنه صحيح على شرط مسلم . وصححه أيضا ًالطحاوي- كما قال ابن القيم في تهذيب السنن (1/56) -، وابن خزيمة وابن حبان- كما في البلوغ -، وصححه النووي في المجموع (1/113) ، والحافظ في الفتح (1/277) . ولأبي أسامة- هذا- حديث آخر يعارض عمومه مفهم هذا الحديث؛ فانظر (رقم 59) . والحديث أخرجه الدارقطني (8) من طريق محمد بن وهب السلمي: نا ابن عياش عن محمد بن إسحاق عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن أبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أنه سُئل عن القَلِيبِ يلقى فيه الجيف، ويشرب منه للكلاب والدواب؟ فقال: ما بلغ الماء قلتين فما فوق ذلك؛ لم ينجسه شيء . وقال: كذا رواه محمد بن وهب عن إسماعيل بن عياش بهذا الإسناد. والمحفوظ: عن ابن عياش عن محمد بن إسحاق عن محمد بن جعفر بن الزبير عن عبيد الله ابن عبد الله بن عمر عن أبيه . قلت: وابن عياش ضعيف في روايته عن الحجازيين، وهذه منها، وقد زاد في متن الحديث ما ليس فيه: فما فوق ذلك .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے (ایسے) پانی کے متعلق پوچھا گیا جس پر جانور اور درندے وارد ہوتے ہیں ( مثلاً تالاب میں داخل ہو جاتے یا اس سے پیتے ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ (محمد) ابن العلاء کی روایت میں “محمد بن جعفر بن زبیر‘‘ آیا ہے جب کہ عثمان بن ابی شیبہ اور حسن بن علی کی روایت میں ’’محمد بن عباد بن جعفر‘‘ منقول ہوا ہے اور یہی (ثانی الذکر) صحیح ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر جانور اور درندے آتے جاتے ہوں (اس میں سے پیتے اور اس میں پیشاب کرتے ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کو دفع کر دے گا (یعنی نجاست اس پر غالب نہیں آئے گی)‘‘ ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن العلاء کے الفاظ ہیں، عثمان اور حسن بن علی نے ’’محمد بن جعفر‘‘ کی جگہ ’’محمد بن عباد بن جعفر‘‘ کا ذکر کیا ہے، اور یہی درست ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی جب پانی دو قلہ ہو تو وہ نجاست کے گرنے سے نجس نہیں ہو گا، (الایہ کہ اس کا رنگ، بو، اور مزہ بدل جائے) دو قلہ کی مقدار (۵۰۰) عراقی رطل ہے اور عراقی رطل (۹۰) مثقال کے برابر ہوتا ہے، انگریزی پیمانے سے دو قلہ کی مقدار تقریباً دو کوئنٹل کے برابر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ), was asked about water (in desert country) and what is frequented by animals and wild beasts. He replied: When there is enough water to fill two pitchers, it bears no impurity.