Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What Impurifies Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
65.
جناب عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا ۔ “ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ حماد بن زید نے اسے عاصم سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
تشریح:
فوائد ومسائل: (1)۔ [قُلَّه] علاقہ ہجر کے معروف بڑے مٹکے کو کہا جاتاهے۔ ان دو مٹکوں میں تقریباً دو سو دس لیٹر پانی سما جاتا ہے۔ (2)۔ ناپاک نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس مقدار کے پانی میں کوئی نجاست پڑ جائے اور اس کے تین اوصاف (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی ایک بھی تبدیل نہ ہو تو وہ پاک ہی ہوتا ہے۔ لہذا ظاہری نجاست اگر کوئی ہو تو نکال دی جائے اور پانی استعمال کرلیا جائے۔ ماء کثیر کی کم از کم مقدار یہی دو قلے ہے (یعنی دو سو دس لیٹر) (3)۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد عرب کے ان بدؤوں کی نفسیات طہارت ونجاست کے بارے میں کس قدر حساس ہوگئی تھی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کے سوالات کیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال البيهقي، وقال ابن معين إنه: جيد الإسناد ، وصححه النووي) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد: أخبرنا عاصم بن المنذر. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير عاصم بن المنذر؛ وهو ثقة بلا خلاف. والحديث أخرجه ابن ماجه والظحاوي والدارقطني والحاكم والبيهقي، والطيالسي (رقم 1954) ، وأحمد (2/23 و 107) من طرق عن حماد... به. وقال الدارقطني: في هذه الرواية قوة لرواية محمد بن إسحاق عن محمد بن جعفر . وكذا قال البيهقي. ونقل النووي (1/112) عنه وعن غيره أن إسنادها صحيح، وصححها هو أيضا (1/115) . وزاد بعض الرواة عن حماد- بعد قوله: قلتين -: أو ثلاثاً ! قال الحاكم:
وقد رواه عفان بن مسلم وغيره من الحفاظ عن حماد بن سلمة؛ ولم يذكروا فيه: أو ثلاثاً ... .قلت: وهو الصواب؛ لعدم ورودها في شيء من الروايات المتقدمة؛ فهي- على ما فيها من الاختلاف- شاذة؛ فلا يجوز أن يُعل الحديث بها، ويزعم أنه مضطرب من أجلها، كما لا يخفى! نعم؛ أعل الحديثَ المصنفُ بقوله عقبه: قال أبو داود: حماد بن زيد وقفه عن عاصم ! قال الدارقطني: وكذلك رواه إسماعيل ابن علية عن عاصم بن المنذر عن رجل لم يسمه عن ابن عمر موقوفاً... ! ثمّ ساق إسناده بذلك. فال الحافظ في التلخيص (1/115) : وسئل ابن معين عن هذه الطريق؟ فقال: إسنادها جيد. قيل له: فإن ابن علية لم يرفعه فقال: وإن لم يحفظ ابن علية؛ فالحديث جيد الإسناد . قلت: وذلك لأنّ الرفع زيادة، وهي من ثقة، فيجب قبولها، لا سيما وأنه قد جاء مرفوعاً من وجه آخر، كما في الإسناد قبله. ومما ينبغي التنبه له: أن الحديث يرويه عن ابن عمر ولداه عبد الله وعبيد الله. ورواه عنهما محمد بن جعفر بن الزبير. وتابعه عن الأول منهما: محمد بن محمد بن عباد بن جعفر. وتابعه عن الآخر: عاصم بن المنذر. وهذا خلاصة ما تقدّم في التخاريج السابقة. (فائدة) : مفهوم الحديث على أن الماء ينجس إذا كان أقل من القلتين، وهو معارض لعموم الحديث الآتي في الباب الذي بعد هذا؛ فلذلك- ولأمور أخرى ذكرها ابن القيم رحمه الله في التهذيب -: الأرجح عندنا العمل بهذا العموم وترك هذا المفهوم. والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا ۔ “ امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ حماد بن زید نے اسے عاصم سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل: (1)۔ [قُلَّه] علاقہ ہجر کے معروف بڑے مٹکے کو کہا جاتاهے۔ ان دو مٹکوں میں تقریباً دو سو دس لیٹر پانی سما جاتا ہے۔ (2)۔ ناپاک نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس مقدار کے پانی میں کوئی نجاست پڑ جائے اور اس کے تین اوصاف (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی ایک بھی تبدیل نہ ہو تو وہ پاک ہی ہوتا ہے۔ لہذا ظاہری نجاست اگر کوئی ہو تو نکال دی جائے اور پانی استعمال کرلیا جائے۔ ماء کثیر کی کم از کم مقدار یہی دو قلے ہے (یعنی دو سو دس لیٹر) (3)۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد عرب کے ان بدؤوں کی نفسیات طہارت ونجاست کے بارے میں کس قدر حساس ہوگئی تھی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کے سوالات کیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پانی جب دو قلہ کے برابر ہو جائے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن زید نے عاصم سے اس روایت کو موقوفاً بیان کیا ہے (اوپر سند میں حماد بن سلمہ ہیں)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah b. 'Umar (RA): The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: When there is enough water to fill two pitchers, it does not become impure. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Hammad b. Zaid has narrated this tradition on the authority of 'Asim (without any reference to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم).