Abu-Daud:
Prayer (Kitab Al-Salat)
(Chapter: A Man Prostrating On His Garment)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
660.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ سخت گرمی کے موسم میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے تو جب کوئی ہم میں سے اپنی پیشانی زمین پر نہ ٹکا سکتا‘ تو اپنا کپڑا بچھا لیتا پھر اس پر سجدہ کرتا۔
تشریح:
(1) سجدے کی جگہ پر کوئی چٹائی، چمڑا یا کپڑا وغیرہ بچھایا گیا ہوتو کوئی حرج نہیں، البتہ پیشانی کا ننگا ہونا اور ننگی زمین پرسجدہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، حدیث: 375 وصحیح مسلم، حدیث: 620) (2) نماز میں خشوع ایک اہم اور ضروری عمل ہے اسے کرنے اور قائم رکھنے کےلیے گرمی سردی سے بچنے یا اس قسم کےمعمولی اعمال نماز کے دوران میں بھی جائز ہیں تاکہ ذہین اور ذہن اور جسم ان عوارض میں الجھانہ رہے۔
’’نماز‘‘ مسلمانوں کے ہاں اللہ عزوجل کی عبادت کا ایک مخصوص انداز ہے اس میں قیام رکوع‘سجدہ‘ اور تشہد میں متعین ذکر اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں اس کی ابتدا کلمہ ’’اللہ اکبر‘‘ سے اور انتہا ’’السلام علیکم ور حمۃ اللہ‘‘ سے ہوتی ہے تمام امتوں میں اللہ کی عبادت کے جو طور طریقے رائج تھے یا ابھی تک موجود ہیں ان سب میں سے ہم مسلمانوں کی نماز ‘انتہائی عمدہ خوبصورت اور کامل عبادت ہے ۔بندے کی بندگی کا عجزہ اور رب ذوالجلال کی عظمت کا جو اظہار اس طریق عبادت میں ہے ‘کسی اور میں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام میں بھی اس کے مقابلے کی اور کوئی عباد نہیں ہے یہ ایک ایساستون ہے جس پر دین کی پوری عمارت کڑی ہوتی ہے ‘ اگر یہ گر جائے تو پوری عمار گر جاتی ہے سب سے پہلے اسی عباد کا حکم دیا گیا اور شب معراج میں اللہ عزوجل نے اپنے رسول کو بلا واسطہ براہ راست خطاب سے اس کا حکم دیا اور پھر جبرئیل امین نے نبئ کریم ﷺ کو دوبار امامت کرائی اور اس کی تمام تر جزئیات سے آپ کو عملاً آگاہ فرمایا اور آپ نے بھی جس تفصیل سے نماز کے احکام و آداب بیان کیے ہیں کسی اور عبادت کے اس طرح بیان نہیں کیے۔قیامت کے روز بھی سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہو گا جس کی نماز درست اور صحیح نکلی اس کے باقی اعمال بھی صحیح ہو جائیں گے اور اگر یہی خراب نکلی تو باقی اعمال بھی برباد ہو جائیں گے رسول اللہ ﷺ اپنی ساری زندگی نماز کی تعلیم و تا کید فرماتے رہے حتی کہ دنیا سے کوچ کے آخری لمحات میں بھی ’’نماز ‘نماز‘‘ کی وصیت آپ کی زبان مبارک پر تھی آپ نے امت کو متنبہ فرمایا کہ اسلام ایک ایک کڑی کر ک ٹوٹتا اور کھلتا چلا جائے گا ‘ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری میں مبتلا ہو جائیں گے اور سب سے آخر میں نماز بھی چھوٹ جائے گی ۔۔(موارد الظمآ ن : 1/401‘حدیث 257 الی زوائد ابن حبان)
قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اس کی فرضیت اور اہمیت بیان کرتی ہیں سفر ‘حضر‘صحت‘مرض ‘امن اور خوف ‘ہر حال میں نماز فرض ہے اور اس کے آداب بیان کیے گئے ہیں نماز میں کوتاہی کر نے والو کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
امام ابوداود نے اس کتاب میں نماز کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ سخت گرمی کے موسم میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے تو جب کوئی ہم میں سے اپنی پیشانی زمین پر نہ ٹکا سکتا‘ تو اپنا کپڑا بچھا لیتا پھر اس پر سجدہ کرتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) سجدے کی جگہ پر کوئی چٹائی، چمڑا یا کپڑا وغیرہ بچھایا گیا ہوتو کوئی حرج نہیں، البتہ پیشانی کا ننگا ہونا اور ننگی زمین پرسجدہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، حدیث: 375 وصحیح مسلم، حدیث: 620) (2) نماز میں خشوع ایک اہم اور ضروری عمل ہے اسے کرنے اور قائم رکھنے کےلیے گرمی سردی سے بچنے یا اس قسم کےمعمولی اعمال نماز کے دوران میں بھی جائز ہیں تاکہ ذہین اور ذہن اور جسم ان عوارض میں الجھانہ رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، تو جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر نہیں ٹیک پاتا تھا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) b. Malik said: We used to pray along with the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) in intense heat. When any of us could not rest his face on bare ground while prostrating due to intense heat he spread his cloth and would prostrate on it.