Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Water Does Not Become Junub (Impure))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
68.
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی کسی اہلیہ محترمہ نے لگن میں سے غسل کیا۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ اس سے وضو یا غسل کرنا چاہتے تھے، تو اہلیہ محترمہ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں جنابت سے تھی (اور میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(تو کیا ہوا ؟) پانی جنبی نہیں ہوتا (پاک ہی رہتا ہے)۔ “
تشریح:
فوائد و مسائل: (1) یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم صحیح مسلم کی حدیث میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔ (حدیث:323) غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی نےحدیث 68 کو صحیح کہا ہے۔(2) اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا مستعمل بقیہ پانی پاک اور قابل استعمال رہتا ہے۔(3) اور وہ حدیث جس میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، وہ نہی تنزیہی ہے۔ (یعنی اس ممانعت پر عمل کرنا بہتر ہے) (سنن نسائی، حدیث:239)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه الترمذي وابن خزيمة وابن حبان وابن الجارود والحاكم ووافقه الذهبي والنووي وابن حجر) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا أبو الأحوص: ثنا سِمَاك عن عكرمة عن ابن عباس. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ وأبو الأحوص: هو سلام بن سُليم الحنفي الكوفي. إلا أن سماكاً- وهو ابن حرب- وإن كان من رجال مسلم؛ فقد تُكُلِّم فيه من قبل حفظه؛ لا سيما في روايته عن عكرمة: فقالوا: إنه يضطرب فيها. والذي يتلخص عندي فيه من مجموع كلامهم: أنه حسن الحديث في غير هذا الإسناد، صحيح الحديث برواية سفيان وشعبة عنه مطلقاً. وقد أطال في ترجمته في الميزان وقال هو: إنه صدوق صالح من أوعية العلم . ثئم نقل عن العجلي أنه قال فيه:
جائز الحديث؛ كان الثوري يضعفه قليلاً . وقال ابن المديني: روايته عن عكرمة مضطربة، فسفيان وشعبة يجعلونها عن عكرمة، وأبو الأحوص وإسرائيل يجعلونها عن عكرمة عن ابن عباس . وفي التهذيب : قال يعقوب: وروايته عن عكرمة خاصة مضطربة، وهو في غير عكرمة صالح وليس من المتثبتين. ومن سمع منه قديماً مثل شعبة وسفيان فحديثهم عنه صحيح مستقيم . قلت: فإذا اتفق أبو الأحوص وسفيان في إسناد الحديث عنه عن عكرمة عن ابن عباس؛ كان دليلاً على صحته، وهذا الحديث من هذا القبيل؛ فإنه رواه سفيان أيضا كما يأتي، وتابعه شعبة أيضا. والحديث أخرجه البيهقي (2/189) من طريق المؤلف. ثمّ أخرجه (2/267) ، والترمذي- وقال: حسن صحيح -، وابن ماجه من
طرق عن أبي الأحوص... به. ثم أخرجه أيضا (2/188 و 267) ، وكذا النسائي (1/62) ، وابن الجارود في المنتقى (27/48) ، والحاكم (1/159) ، وأحمد (1/235 و 284 و 308) من طريق سفيان عن سماك... به؛ إلا أنه قال:
لا ينجس . وكذلك رواه ابن حبان في صحيحه - كما في نصب الراية (1/95) -. وتابعه شعبة أيضا عن سماك: عند الحاكم، والبزار (1/132/290) . وشريك: عند الدارقطني (19) ، وأحمد (6/300) ، ووهم فيه شريك فقال:
عن ابن عباس عن ميمونة زوج النّبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قالت: أجنبت... الحديث؛ فجعله من مسندها! وإنما هو من مسند ابن عباس، كما رواه الجماعة. ثمّ قال الحاكم: قد احتج البخاري بأحاديث عكرمة، واحتج مسلم بأحاديث سماك بن حرب، وهذا حديث صحيح في الطهارة، ولا يحفظ له علة ! ووافقه الذهبي! وقال الحافط في الفتح (1/240) :
وقد أعله قوم بسماك بن حرب راويه عن عكرمة؛ لأنه كان يقبل التلقين، لكن قد رواه عنه شعبة وهو لا يحمل عن مشايخه إلا صحيح حديثهم . ولذلك قال الحافط في مكان آخر (1/273) : وهو حديث صحيح؛ رواه الأربعة وابن خزيمة وغيرهم . قلت: ومنهم الطحاوي في شرح المعاني (1/15) - عن سفيان-، والدارمي (1/187) - عنه وعن يزيد بن عطاء-. وله شاهد موقوف: أخرجه أحمد (6/172) ، والبيهقي (2/187) عن شعبة عن يزيد الرٌ شك عن معاذة قالت: سألت عائشة عن الغسل من الجنابة؟ فقالت: إن الماء لا ينجسه شىء، قد كنت أغتسل أنا ورسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من إناء واحد، يبدأ فيغسل يديه. وإسناده صحيح على شرط الشيخين. والحديث صححه النووي أيضا (2/190) . ورواه الطبراني في الأوسط (2093) من طريق آخر عن عائشة... مرفوعاً، وفيه شريك؛ وهو القاضي.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی کسی اہلیہ محترمہ نے لگن میں سے غسل کیا۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے آپ ﷺ اس سے وضو یا غسل کرنا چاہتے تھے، تو اہلیہ محترمہ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اے اللہ کے رسول! میں جنابت سے تھی (اور میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(تو کیا ہوا ؟) پانی جنبی نہیں ہوتا (پاک ہی رہتا ہے)۔ “
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1) یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم صحیح مسلم کی حدیث میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔ (حدیث:323) غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی نےحدیث 68 کو صحیح کہا ہے۔(2) اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا مستعمل بقیہ پانی پاک اور قابل استعمال رہتا ہے۔(3) اور وہ حدیث جس میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی کے استعمال سے منع کیا گیا ہے، وہ نہی تنزیہی ہے۔ (یعنی اس ممانعت پر عمل کرنا بہتر ہے) (سنن نسائی، حدیث:239)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ایک لگن سے (چلو سے پانی لے لے کر) غسل جنابت کیا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ اس برتن میں بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل کرنے کے لیے تشریف لائے تو ام المؤمنین نے آپﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی (اور یہ غسل جنابت کا بچا ہوا پانی ہے )، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانی ناپاک نہیں ہوتا‘‘۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی غسل جنابت کے بعد بچا ہوا پانی پاک ہوتا ہے اور اس میں چھینٹیں پڑنے سے اس کی پاکی متأثر نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): One of the wives of the Prophet (ﷺ) took a bath from a large bowl. The Prophet (ﷺ) wanted to perform ablution or take from the water left over. She said to him: O Prophet (ﷺ) of Allah, verily I was sexually defiled. The Prophet (ﷺ) said: Water not defiled.