Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Water Left By A Cat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
75.
کبثہ بنت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ یہ (عبداللہ ابن ابی قتادہ) ابن ابی قتادہ کے نکاح میں تھیں ، بیان کرتی ہیں کہ (ان کے خسر) سیدنا ابوقتادہ ؓ (ان کے گھر) آئے تو اس نے ان کے لیے وضو کی خاطر پانی انڈیلا تو ایک بلی آ گئی اور اس (برتن) سے پانی پینے لگی۔ ابوقتادہؓ نے بلی کے لیے برتن کو قدرے ٹیڑھا کر دیا حتیٰ کہ اس نے پانی پی لیا۔ کبثہ کہتی ہیں کہ ابوقتادہؓ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کے اس عمل کو حیرت سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا: اے بھتیجی ! کیا تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’بلی نجس نہیں ہے، یہ تم پر گھومنے پھرنے والے جانوروں میں سے ہے۔‘‘
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وصححه الترمذي والبخاري والدارقطني والعقيلي وابن خزيمة وابن حبان والبيهقي والحاكم ووافقه الذهبي والنووي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي عن مالك عن إسحاق بن عبد الله ابن أبي طلحة عن حُميدة بنت عبيد بن رقاعة عن كبشة بنت كعب بن مالك. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخبن؛ غير حميدة هذه، وقد ذكرها ابن حبان في الثقات ، وقد أشار إلى توثيقها من صحح حديثها هذا، كما يأتي ذكرهم، وهما زوجة إسحاق بن عبد الله هذا؛ وقد روى عنها ابنها يحيى أيضا. والحديث في موطأ مالك (1/45- 46) .
وأخرجه بقية أصحاب السنن الأربعة ، وكذا الدارمي والطحاوي والدارقطني والحاكم والبيهقي، وأحمد (5/303 و 309) كلهم عن مالك... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . قال: وقد جود مالك هذا الحديث عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، ولم يأت به أحد أنم من مالك . وقال الحاكم: حديث صحيح، وهو مما صححه مالك، واحتج به في الموطأً ... ، ووافقه الذهبي. وصححه أيضا النووي في المجموع (1/171) ، ثمّ نقل عن البيهقي أنه قال: إسناده صحيح ! ولم أجد هذا صريحاً في سننه الكبرى .ونقل الحافظ في التلخيص تصحيحه عن البخاري والدارقطني والعقيلي. وفي نصب الراية (1/137) : قال الشيخ تقى الدين في الإمام : ورواه ابن خزيمة وابن منده في صحيحيهما ؛ لكن ابن منده قال: وحميدة وخالتها كبشة لا يعرف لهما رواية إلا في هذا الحديث، ومحلهما محل الجهالة، ولايثبت هذا الخبر من وجه من الوجوه. قال الشيخ: وإذا لم يعرف لهما رواية إلا في هذا الحديث؛ فلعل طريق من
صححه أن يكون اعتمد على إخراج مالك لروايتها؛ مع شهرته بالتثبت . قلت: وأيضا؛ فإن حميدة قد وثقها ابن حبان كما سبق؛ وهو وإن كان معروفاً بالتساهل في التوثيق؛ غير أنه قد أيده في ذلك تصحيح من صحح الحديث من
الأئمة الفحول، كالبخاري وغيره ممن سبق ذكرهم. وأما كبشة فقد قال ابن حبان: لها صحبة ؛ وتبعه الزبير بن بكار وأبو موسى؛ كما في قهذيب التهذيب . ثمّ إن للحديث طرقاً وشاهداً من طرق، لا يبقى معها مجال للشك في صحة
الحديث. فمن طرقه: ما قاله الشافعي في المسند (ص 3) - بعدما ساق الحديث من طريق مالك-: أنبأنا الثقة عن يحيى بن أبي كثير عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه عن النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مثله أو مثل معناه. والثقة هذا الذي لم يسم: هو همام بن يحيى أبو بكر البصري؛ وهو ثقة، كما قال الشافعي؛ احتج به الشيخان: أخرجه البيهقي (1/246) من طريق عفان عن همام: ثنا يحيى بن أبي كثير. .. به. وهذا إسناد صحيح على شرطهما؛ إذا كان يحيى سمعه من عبد الله بن أبي قتادة. وتابعه الحجاج عن قتادة عن عبد الله بن أبي قتادة بلفظ: السنَّوْرُ من أهل البيت، وإنه من الطّوّافين أو الطّوّافات عليكم . أخرجه أحمد (5/309) . قلت: ورجاله ثقات؛ إلا أن الحجاج- وهو أبن أرطاة- مدلس. ومنها: ما عند الطحاوي من طريق قيس بن الربيع عن كعب بن عبد الرحمن عن جده أبي قتادة قال: رأيته يتوضأ، فجاء الهر فأصغى له حتى شرب من الإناء، فقلت: يا أبتاه! لم تفعل هذا؟! فقال: كان النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفعله أو قال: هي من الطّوّافين عليكم . ورجاله موثقون؛ غير كعب هذا فلم أجد من ذكره (ثم وجدتَه في كشف الأستار للسندهي فقال: ذكره ابن حبان في الثقات... .فالأسناد حسن؛ إن شاء الله تعالى.) . وله عند البيهقي طريقان آخران أحدهما موقوف، ثمّ قال: وكل ذلك شاهد لصحة رواية مالك . وأما الشاهد الذي سبقت الإشارة إليه؛ فهو:
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
کبثہ بنت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ یہ (عبداللہ ابن ابی قتادہ) ابن ابی قتادہ کے نکاح میں تھیں ، بیان کرتی ہیں کہ (ان کے خسر) سیدنا ابوقتادہ ؓ (ان کے گھر) آئے تو اس نے ان کے لیے وضو کی خاطر پانی انڈیلا تو ایک بلی آ گئی اور اس (برتن) سے پانی پینے لگی۔ ابوقتادہؓ نے بلی کے لیے برتن کو قدرے ٹیڑھا کر دیا حتیٰ کہ اس نے پانی پی لیا۔ کبثہ کہتی ہیں کہ ابوقتادہؓ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کے اس عمل کو حیرت سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا: اے بھتیجی ! کیا تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’بلی نجس نہیں ہے، یہ تم پر گھومنے پھرنے والے جانوروں میں سے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کبشۃ بنت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ وہ ابن ابی قتادہ کے عقد میں تھیں۔ وہ کہتی ہیں: ابوقتادہ ؓ اندر داخل ہوئے، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی رکھا، اتنے میں بلی آ کر اس میں سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے پانی کا برتن ٹیڑھا کر دیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشۃ کہتی ہیں: پھر ابوقتادہ ؓ نے مجھ کو دیکھا کہ میں ان کی طرف (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں تو آپ نے کہا: میری بھتیجی! کیا تم تعجب کرتی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، ابوقتادہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یہ نجس نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے اردگرد گھومنے والوں اور گھومنے والیوں میں سے ہے۔ “ ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی رات دن گھر میں رہتی ہے اس لئے پاک کر دی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatadah (RA): Kabshah, daughter of Ka'b ibn Malik and wife of Ibn Abu Qatadah, reported: Abu Qatadah visited (me) and I poured out water for him for ablution. A cat came and drank some of it and he tilted the vessel for it until it drank some of it. Kabshah said: He saw me looking at him; he asked me: Are you surprised, my niece? I said: Yes. He then reported the Messenger of Allah (ﷺ) as saying: It is not unclean; it is one of those (males or females) who go round among you.