Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: Those Who Did Not Mentiong Raisin The Hands After Ruku')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
751.
جناب سفیان نے اسی سند سے اس حدیث کو بیان کیا کہا پس آپ نے پہلی ہی بار اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اور بعض نے کہا: ایک ہی بار اٹھائے۔
تشریح:
حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت امام ترمذی کی تحقیق مین ’’حسن،، اور امام ابن حزم کے نزدیک ’’صحیح،، ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی اور ان سے پہلے علامہ احمد محمد شاکر � نے بھی اسے ’’صحیح،، لکھا ہے۔ جبکہ متقدمین حفاظ حدیث کی تحقیق کے خلاصہ حافظ ابن حجر � نےیوں بیان کیا ہے کہ ابن المبارک نے کہا: یہ حدیث میرے نزدیک ثابت نہیں ہے۔،، ابن ابی حاتم نے اپنے والد سےبیان کیا: (ھذا حدیث خطأ) ’’یہ حدیث خطا اور غلط ہے۔‘‘ امام احمد حنبل � اور ان کے شیخ یحیی بن آدم نے کہا:’’ضعیف ہے۔،، امام بخاری � نے بھی ان ہی کی تائید ومتابعت کی ہے۔ امام ابو داؤد � نےکہا:’’یہ صحیح نہیں ہے۔،، دار قطنی نےکہا: یہ ثابت نہیں ہے۔،، ابن حبان نےکہا:’’اہل کوفہ کےمذہب کےمطابق رکوع کےرفع الیدین کی نفی میں یہ ان کی سب سےعمدہ (احسن) حدیث ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس میں کچھ علتیں ہیں جن کی بنا پر یہ ضعیف قرار پاتی ہے۔،، (التلخیص الحبیر :1؍ 222 ، نیل الأوطار : 2؍201) علامہ شوکانی � لکھتے ہیں: ’’اگر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث کوصحیح تسلیم کرلیں اورائمہ حدیث کی تنقید کا کوئی اعتبار نہ بھی کریں تو اس حدیث اور دیگر احادیث، جن میں رکوع کے رفع الیدین کا اثبات ہے، میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے کیونکہ ان احادیث میں امرزائد کا بیان ہے اور (صحیح احادیث سے ثابت) امور زائد بالاجماع مقبول ہوا کرتے ہیں بالخصوص جبکہ اسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہو اور محدثین کی ایک جماعت اس کی راوی ہو۔ (نیل الأوطار: 2؍202) ملحوظہ: یہ قاعدہ سجدوں کے رفع الیدین پر منطبق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ صحیح اسانید سے ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ بالوضاحت کہتےہیں: ’’آپ ﷺ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔،، (صحیح بخاری، حدیث: 735 و صحیح مسلم، حدیث: 39) علامہ احمد شاکر � فرماتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث) سےدیگر مواقع کے رفع الیدین کا ترک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں ’’نفی،، کا بیان ہے او ردیگر صحیح احادیث میں ’’اثبات،، ہے اور اثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے۔ چونکہ یہ عمل سنت ہے، ممکن ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی ایک یا زیادہ بار اسے ترک بھی کیا ہو۔ مگر اغلب اور اکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہے لہذا رکوع کےلیے جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ہی سنت ہے (حواشی جامع ترمذی: 2؍41 بتحقیق احمد شاکر ) راقم عرض کرتا ہے کہ صحیح احادیث میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں محسوس ہوتا ہے وہ یا تو نقل کی خرابی ہوتی ہے یا عقل وفہم کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت اسنادی بحث سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی قابل بحث ہے۔ اول تو اس میں سوائے ایک بار رفع الیدین کےاثباتا یانفیا اور کوئی بات مذکورہ نہیں ہے حالانکہ نماز کے بیسیوں مسائل ہیں۔ جیسے ان کے نہ ذکر سے ان کی نفی ہوتی۔ ایسے ہی رکوع کا رفع الیدین ہے۔ دوسرے اس کو متنازع رفع الیدین کےساتھ خاص کرنے کی بجائے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے پھر دو بارہ رفع الیدین نہ کیا، بلکہ پہلی رکعت ہی میں ایک بار ہاتھ اٹھائے تھے۔ یا جیسے کہ سید اسمعیل شہید � نے بحوالہ فتوحات لکھا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت آپ ﷺ باربار ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے بلکہ صرف ایک ہی بار اٹھانا مسنون ہے۔ (جیسے کہ بعض وسوسہ زدہ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کی نیت ہی سیدھی نہیں ہو پاتی ہے اور وہ باربار ہاتھ اٹھاتے اور باندھے ہیں۔) محدثین کرام پر اللہ بےشمار رحمتیں ہوں ، انہوں نے دین کی امانت پوری دیانت کے ساتھ .......... اپنی اسانید سے ......... بلاکم وکاست امت کےحوالے کردی ہے۔ اور اس میں اصحاب بصیرت کودعوت ہے کہ مسلمہ اصولوں کے تحت آپ لوگ بھی تنقیح کرسکتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عصمت صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کےلیے ہے۔ آپ کے بعد تلامذہ رسول، تابعین عظام اور ائمہ امت سب کے سب قابل اعزاز واکرام ہیں مگر حجت اور اللہ کے ہاں قربت کتاب اللہ اور صحیح ثابت شدہ فرامین رسول میں ہے۔ (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ) ( الحشر : 10) (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران: 8)
جناب سفیان نے اسی سند سے اس حدیث کو بیان کیا کہا پس آپ نے پہلی ہی بار اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اور بعض نے کہا: ایک ہی بار اٹھائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت امام ترمذی کی تحقیق مین ’’حسن،، اور امام ابن حزم کے نزدیک ’’صحیح،، ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی اور ان سے پہلے علامہ احمد محمد شاکر � نے بھی اسے ’’صحیح،، لکھا ہے۔ جبکہ متقدمین حفاظ حدیث کی تحقیق کے خلاصہ حافظ ابن حجر � نےیوں بیان کیا ہے کہ ابن المبارک نے کہا: یہ حدیث میرے نزدیک ثابت نہیں ہے۔،، ابن ابی حاتم نے اپنے والد سےبیان کیا: (ھذا حدیث خطأ) ’’یہ حدیث خطا اور غلط ہے۔‘‘ امام احمد حنبل � اور ان کے شیخ یحیی بن آدم نے کہا:’’ضعیف ہے۔،، امام بخاری � نے بھی ان ہی کی تائید ومتابعت کی ہے۔ امام ابو داؤد � نےکہا:’’یہ صحیح نہیں ہے۔،، دار قطنی نےکہا: یہ ثابت نہیں ہے۔،، ابن حبان نےکہا:’’اہل کوفہ کےمذہب کےمطابق رکوع کےرفع الیدین کی نفی میں یہ ان کی سب سےعمدہ (احسن) حدیث ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس میں کچھ علتیں ہیں جن کی بنا پر یہ ضعیف قرار پاتی ہے۔،، (التلخیص الحبیر :1؍ 222 ، نیل الأوطار : 2؍201) علامہ شوکانی � لکھتے ہیں: ’’اگر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث کوصحیح تسلیم کرلیں اورائمہ حدیث کی تنقید کا کوئی اعتبار نہ بھی کریں تو اس حدیث اور دیگر احادیث، جن میں رکوع کے رفع الیدین کا اثبات ہے، میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے کیونکہ ان احادیث میں امرزائد کا بیان ہے اور (صحیح احادیث سے ثابت) امور زائد بالاجماع مقبول ہوا کرتے ہیں بالخصوص جبکہ اسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہو اور محدثین کی ایک جماعت اس کی راوی ہو۔ (نیل الأوطار: 2؍202) ملحوظہ: یہ قاعدہ سجدوں کے رفع الیدین پر منطبق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ صحیح اسانید سے ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ بالوضاحت کہتےہیں: ’’آپ ﷺ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔،، (صحیح بخاری، حدیث: 735 و صحیح مسلم، حدیث: 39) علامہ احمد شاکر � فرماتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث) سےدیگر مواقع کے رفع الیدین کا ترک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں ’’نفی،، کا بیان ہے او ردیگر صحیح احادیث میں ’’اثبات،، ہے اور اثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے۔ چونکہ یہ عمل سنت ہے، ممکن ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی ایک یا زیادہ بار اسے ترک بھی کیا ہو۔ مگر اغلب اور اکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہے لہذا رکوع کےلیے جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ہی سنت ہے (حواشی جامع ترمذی: 2؍41 بتحقیق احمد شاکر ) راقم عرض کرتا ہے کہ صحیح احادیث میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں محسوس ہوتا ہے وہ یا تو نقل کی خرابی ہوتی ہے یا عقل وفہم کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت اسنادی بحث سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی قابل بحث ہے۔ اول تو اس میں سوائے ایک بار رفع الیدین کےاثباتا یانفیا اور کوئی بات مذکورہ نہیں ہے حالانکہ نماز کے بیسیوں مسائل ہیں۔ جیسے ان کے نہ ذکر سے ان کی نفی ہوتی۔ ایسے ہی رکوع کا رفع الیدین ہے۔ دوسرے اس کو متنازع رفع الیدین کےساتھ خاص کرنے کی بجائے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے پھر دو بارہ رفع الیدین نہ کیا، بلکہ پہلی رکعت ہی میں ایک بار ہاتھ اٹھائے تھے۔ یا جیسے کہ سید اسمعیل شہید � نے بحوالہ فتوحات لکھا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت آپ ﷺ باربار ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے بلکہ صرف ایک ہی بار اٹھانا مسنون ہے۔ (جیسے کہ بعض وسوسہ زدہ لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کی نیت ہی سیدھی نہیں ہو پاتی ہے اور وہ باربار ہاتھ اٹھاتے اور باندھے ہیں۔) محدثین کرام پر اللہ بےشمار رحمتیں ہوں ، انہوں نے دین کی امانت پوری دیانت کے ساتھ .......... اپنی اسانید سے ......... بلاکم وکاست امت کےحوالے کردی ہے۔ اور اس میں اصحاب بصیرت کودعوت ہے کہ مسلمہ اصولوں کے تحت آپ لوگ بھی تنقیح کرسکتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عصمت صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کےلیے ہے۔ آپ کے بعد تلامذہ رسول، تابعین عظام اور ائمہ امت سب کے سب قابل اعزاز واکرام ہیں مگر حجت اور اللہ کے ہاں قربت کتاب اللہ اور صحیح ثابت شدہ فرامین رسول میں ہے۔ (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ) ( الحشر : 10) (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران: 8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ”آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا.“ اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ”ایک بار اٹھایا.“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has also been transmitted by Sufyan through a different chain of narrators. This version has:He raised his hands once in the beginning. Some narrated: (raised his hands) once only.