Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Water Left By A Cat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
76.
داود بن دینار التمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کی مالکہ نے اسے (یعنی ام داود کو) سیدہ عائشہ ؓ کے ہاں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر بھیجا تو اس نے انہیں نماز پڑھتے پایا۔ انہوں نے (اثنائے نماز ہی میں) اشارہ کیا کہ رکھ دے۔ چنانچہ (اسی دوران میں) ایک بلی آئی اور اس میں سے کچھ کھا گئی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے وہیں سے کھانا شروع کر دیا جہاں سے بلی نے کھایا تھا اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ نجس نہیں ہے، یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والے جانوروں میں سے ہے۔‘‘ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ وہ اس کے جوٹھے پانی سے وضو کر لیا کرتے تھے۔
تشریح:
فوائدو مسائل: (1) یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔(2)’’طوافین اور طوافات‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ مکھی، مچھر، بھڑ، کوا، اور مرغی وغیرہ جانوروں سے تحفظ ممکن نہیں ہے اور ان کا جھوٹا بھی پاک ہے۔ اس کا کھا لینا اور اس سے وضو کرلینا سب درست ہے۔ (3)خسر، محرم رشتوں میں سے ہے اس سے پردہ نہیں اور خدمت اس کاحق ہے۔(4)جانوروں سے حسن معاملہ حسن اخلاق کا حصہ اور اجر کا باعث ہے۔(5) ہمسایوں اور دوستوں کو تحائف یا ہدایا دینا اور کھانا بھجوانا ایک اسلامی شعار ہے۔(6) نماز میں مجبوری ہو تو مناسب اشارہ جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقد صحح بعضه ابن خزيمة والحاكم ووافقه الذهبي والحافظ) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة: ثنا عبد العزيز عن داود بن صالح بن دينار التمار. وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ غير أم داود بن صالح؛ أوردها الذهبي في فصل من لم تسم من فصل النسوة المجهولات . وقد أغفلها الحافظ في تهذيب التهذيب ، وفي التقريب ، والخزرجي في الخلاصة ، فلم يوردوها في (الكنى) ، ولا أعلم اسمها! لكن الحديث صحيح يشاهده الذي قبله، وبطرقه الأتية. والحديث أحرجه الدارقطني، والبيهقي من طريقين آخرين عن عبد العزيز بن محمد الدراوردي... به، وقال الدارقطني: رفعه الدراوردي عن داود بن صالح. ورواه عنه هشام بن عروة موقوفاً على عائشة . قلت: لكن قد جاء عنها مرفوعاً من طرق أخرى؛ مما يدل على أن الحديث مرفوع في الأصل، قصر به بعض الرواة فوقفه: فمن طرقه: ما أخرجه ابن ماجه والدارقطني والطحاوي عن حارثة بن أبي الرِّجال عن عمرة عن عائشة قالت:كنت أتوضأ أنا ورسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من إناء واحد، قد أصابت منه الهرة قبل ذلك. وحارثة هذا ضعيف. ومنها: ما عند ابن خزيمة (103) ، والدارقطني والبيهقي وكذا الحاكم من طريق سليمان بن مسافع بن شيبة الحَجَبِيِّ قال: سمعت منصور ابن صفية بنت شيبة يحدث عن أمه صفية عن عائشة أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال في الهرة: إنها ليست بنجَس؛ هي كبعض أهل البيت . وقال الحاكم: إنه شاهد بإسناد صحيح لحديث أبي قتادة السابق ! ووافقه الذهبي؛ مع أنه قال في ترجمة مسافع هذا في الميزان : لا يعرف؛ وأتى بخبر منكر ! ورد عليه الحافظ في اللسان ؛ فقال بعد أن ساق الحديث: وأخرجه ابن خزيمة في صحيحه ؛ وليس فيه نكارة، كما زعم المصنف . ومنها: ما عند الطحاوي من طريق خالد بن عمرو الخُرَاساني قال: ثنا صالح ابن حيان قال: ثنا عروة بن الزبير عن عائشة: أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يُصْغِي الإناء للهر، ويتوضأ بفضله. وله طريق أخرى عن عروة: عند الدارقطني؛ وكلاهما ضعيف. وهذه الطرق وإن كان لا يخلو كل منها على انفرادها من مقال؛ فمجموعها مما يقوي الحديث، ولا سيما أن شاهده قوي؛ كما سبق بيانه. والله أعلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
داود بن دینار التمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کی مالکہ نے اسے (یعنی ام داود کو) سیدہ عائشہ ؓ کے ہاں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر بھیجا تو اس نے انہیں نماز پڑھتے پایا۔ انہوں نے (اثنائے نماز ہی میں) اشارہ کیا کہ رکھ دے۔ چنانچہ (اسی دوران میں) ایک بلی آئی اور اس میں سے کچھ کھا گئی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے وہیں سے کھانا شروع کر دیا جہاں سے بلی نے کھایا تھا اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ نجس نہیں ہے، یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والے جانوروں میں سے ہے۔‘‘ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ وہ اس کے جوٹھے پانی سے وضو کر لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائدو مسائل: (1) یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔(2)’’طوافین اور طوافات‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ مکھی، مچھر، بھڑ، کوا، اور مرغی وغیرہ جانوروں سے تحفظ ممکن نہیں ہے اور ان کا جھوٹا بھی پاک ہے۔ اس کا کھا لینا اور اس سے وضو کرلینا سب درست ہے۔ (3)خسر، محرم رشتوں میں سے ہے اس سے پردہ نہیں اور خدمت اس کاحق ہے۔(4)جانوروں سے حسن معاملہ حسن اخلاق کا حصہ اور اجر کا باعث ہے۔(5) ہمسایوں اور دوستوں کو تحائف یا ہدایا دینا اور کھانا بھجوانا ایک اسلامی شعار ہے۔(6) نماز میں مجبوری ہو تو مناسب اشارہ جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
داود بن صالح بن دینار تمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی مالکن نے انہیں ہریسہ (ایک قسم کا کھانا) دے کر ام المؤمنین عائشہ ؓ کی خدمت میں بھیجا تو انہوں نے عائشہ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، عائشہ ؓ نے مجھے کھانا رکھ دینے کا اشارہ کیا (میں نے کھانا رکھ دیا)، اتنے میں ایک بلی آ کر اس میں سے کچھ کھا گئی، جب ام المؤمنین عائشہ ؓ نماز سے فارغ ہوئیں تو بلی نے جہاں سے کھایا تھا وہیں سے کھانے لگیں اور بولیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یہ ناپاک نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے‘‘ ، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلی کے جھوٹے سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): Dawud ibn Salih ibn Dinar at-Tammar quoted his mother as saying that her mistress sent her with some pudding (harisah) to 'Aishah (RA) who was offering prayer. She made a sign to me to place it down. A cat came and ate some of it, but when 'Aishah (RA) finished her prayer, she ate from the place where the cat had eaten. She stated: The Messenger of Allah (ﷺ) said: It is not unclean: it is one of those who go round among you. She added: I saw the Messenger of Allah (ﷺ) performing ablution from the water left over by the cat.