باب: عورت کے (استعمال سے) بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From The Water Left By A Woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
77.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ”میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے نہا لیا کرتے تھے جب کہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے۔“
تشریح:
فوائد و مسائل: (1)میاں بیوی شرعی لحاظ سے ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے دونوں کے اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ (2) جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے برتن سے پانی لیا تو وہ عورت کا مستعمل ہو گیا۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ پانی لیتے تو وہ ان کا مستعمل ہو جاتا۔ معلوم ہوا کہ بقیہ پانی کا استعمال جائز ہے خواہ عورت کا ہو یا مرد کا۔ بالخصوص جبکہ وہ دانا اور سمجھدار ہوں اور نامعقول طور پر پانی میں چھینٹے نہ ڈالتے ہوں۔ توضیح: حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہﷺ سے محرم ہونے کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہے۔ یہ واقعہ شاید6ھ آیات حجاب کے نزول سے پہلے کا ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه هو ومسلم وأبو عوانة في صحاحهم ، وله عندهم طرق كثيرة عنها) . إسناده: ثنا مسدد: ثنا يحيى عن سفيان: حدثني منصور عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة. وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ ولم يخرجه بهذا الإسناد. والحديث أخرجه أحمد (6/191) أيضا قال: ثنا يحيى... به. ثمّ أخرجه هو (6/189- 210) ، والطحاوي (1/15) من طرق عن سفيان... به. وهو عند النسائي (1/47) من طريق يحيى عن سفيان. وتابعه عنده عَبِيدة بن حُمَيد عن منصور... نحوه. وأخرجه الشيخان، وأبو عوانة في صحيحه ، وبقية أصحاب السنن الأربعة والدارمي والدارقطني والطحاوي أيضا، والبيهقي، وأحمد (6/30 و 37 و 43 و 64 و 91 و 103 و 118 و 123 و 127 و 129 و 153 و 157 و 161 و 168 و 170 و 171 و 172 و 173 و 192 و 193 و 199 و 230 و 231 و 235 و 255 و 265 و 281) ، وكذا الطيالسي (رقم 1416 و 1421 و 1438 و 1573) من طرق كثيرة عن عائشهَ رضي الله عنها... به. (فائدة) : في سبب رواية عائشة رضي الله عنها للحديث؛ قال الحافظ في الفتح (1/290) : واستدل به الداودي على جواز نظر الرجل إلى عورة امرأته وعكسه، ويؤيده ما رواه ابن حبان من طريق سليمان بن موسى: أنه سئل عن الرجل ينظر إلى فرج امرأته؟ فقال: ساكلت عطاءً؟ فقال: سألت عائشة؟... فذكرت هذا الحديث بمعناه. وهو نص في المسألة . قلت: ويؤيد ذلك قوله عليه الصلاة والسلام: احفظ عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك... الحديث. وإسناده ثابت، كما سيأتي في الكتاب (رقم...) [كتاب الحمام/ما جاء في التعري] . ثمّ إن النظر يشهد لذلك عند من تأمل، ولا يتسع المقام لتوضيحه وبيانه.
وأما ما أخرجه الخطيب في تاريخه (1/225) ، وكذا الطبراتا فما معجمه الصغير (ص 27) ، ومن طريقه أبو نعيم في الحلية (8/247) عن عائشة أيضا قالت: مارأيت عورة رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قط. فقالى الطبراني: تفرد به بركة بن محمد . وهو لا بركة فيه؛ فإنه وضاع كذاب، وهذا الحديث من أباطيله؛ كما قال الحافط في اللسان .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ”میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے نہا لیا کرتے تھے جب کہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے۔“
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1)میاں بیوی شرعی لحاظ سے ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے دونوں کے اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ (2) جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے برتن سے پانی لیا تو وہ عورت کا مستعمل ہو گیا۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ پانی لیتے تو وہ ان کا مستعمل ہو جاتا۔ معلوم ہوا کہ بقیہ پانی کا استعمال جائز ہے خواہ عورت کا ہو یا مرد کا۔ بالخصوص جبکہ وہ دانا اور سمجھدار ہوں اور نامعقول طور پر پانی میں چھینٹے نہ ڈالتے ہوں۔ توضیح: حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہﷺ سے محرم ہونے کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہے۔ یہ واقعہ شاید6ھ آیات حجاب کے نزول سے پہلے کا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): My hands and the hands of the Messenger of Allah (ﷺ) alternated into one vessel while we performed ablution.