باب: ان حضرات کے دلائل جو «بسم الله الرحمن الرحيم» کو اونچی آواز سے نہیں پڑھتے
)
Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: Those Who Do Not Say That "Bismilaahir-Rahmanir-Rahim" Should Be Said Aloud)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
785.
جناب عروہ کے واسطہ سے سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہےاور عروہ نے قصہ افک کا ذکر کیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ»۔ امام ابوداؤد ؓ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے۔ اسے زہری سے محدثین کی جماعت نے روایت کیا ہے مگر انہوں نے یہ کلام (یعنی تعوذ) اس طریقے سے (یعنی یہاں پر) ذکر نہیں کیا اور مجھے اندیشہ ہے کہ شیطان سے «تعوذ» کا بیان حمید کا کلام ہو گا۔
تشریح:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے۔ کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے۔ کہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام بھی آئے۔ کیونکہ قرآن میں ہے۔ (فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)(النحل۔98/16) اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ (أعوذ بالسمع العلیم) نہیں ہے۔ یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے۔ دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابو دائود کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہوگی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے۔ جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اوراس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال أبو داود: وهذا حديث منكر . وضعفه ابن القطان وابن القيم،وأعلاه بمن دون حميد) .إسناده: حدثنا قطنُ بن نُسيْرٍ : ثنا جعفر: ثنا حُميْدٌ الأعرج المكيُ...قال أبو داود: وهذا حديث منكر، قد روى هذا الحديث عن الزهري جماعةٌ لم يذكروا هذاالكلام على هذا الشرح. وأخاف أن يكون أمر الاستعاذة من كلام حميد !قلت: هذا كلامه عقب الحديث. وتعقبه ابن القيم في تهذيب السنن (1/379) ، فقال: قال ابن القطان: حميد بن قيس أحد الثقات. وإنما علته أنه من رواية قطنِ
ابن نُسيْرٍ عن جعفر بن سليمان عن حميد. وقطن- وإن كان روى عنه مسلم-فكان أبو زرعة يحمل عليه، ويقول: روى عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن أنسأحاديث مما أنكر عليه. وجعفر أيضاً مختلف فيه. فليس ينبغي أن يحمل على حميد- وهو ثقة بلا خلاف- في شيء جاء به من يختلف فيه .والحديث أخرجه البيهقي (2/43) من طريق المصنف
جناب عروہ کے واسطہ سے سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہےاور عروہ نے قصہ افک کا ذکر کیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ»۔ امام ابوداؤد ؓ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے۔ اسے زہری سے محدثین کی جماعت نے روایت کیا ہے مگر انہوں نے یہ کلام (یعنی تعوذ) اس طریقے سے (یعنی یہاں پر) ذکر نہیں کیا اور مجھے اندیشہ ہے کہ شیطان سے «تعوذ» کا بیان حمید کا کلام ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے۔ کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے۔ کہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام بھی آئے۔ کیونکہ قرآن میں ہے۔ (فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)(النحل۔98/16) اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ (أعوذ بالسمع العلیم) نہیں ہے۔ یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے۔ دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابو دائود کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہوگی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے۔ جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اوراس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ» ۱؎ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ’’یعنی بے شک جو لوگ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔‘‘ (سورہ نور:۱۱)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Urwah reported on the authority of ‘A’ishah mentioning the incident of slander. She said:The Messenger of Allah (ﷺ) sat and unveiled his face and said: “I take refuge in Allah, All-Hearing, All-Knowing from the accursed devil. Lo! They who spread the slander are a gang among you.”
Abu Dawud said: This is a rejected (munkar) tradition. A group of narrators have reported this tradition from al-Zuhri; but did not mention this detail. I am afraid the phrase concerning “seeking refuge in Allah” is the statement of Humaid.