باب: جو کوئی اپنی نماز میں سورۃ فاتحہ کی قرآت چھوڑ دے
)
Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: The One Who Did Not Recite The Faithah In His Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
823.
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ ﷺ نے قراءت شروع فرمائی مگر وہ آپ ﷺ پر بھاری ہو گئی۔ (یعنی آپ اس میں رواں نہ رہ سکے) جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو کہا: ”شاید کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟“ ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ پڑھا کرو مگر فاتحہ، کیونکہ جو اسے (فاتحہ کو) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔“
تشریح:
شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔ جبکہ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ اور خطابی کہتے ہیں۔ (جید۔لاطعن فیه) یعنی حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں (عون المعبود) علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ایک علت ہے کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ عن روایت کیا ہے۔ اور وہ مدلس ہے۔ اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔ ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بہیقی نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے۔ اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے۔ اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہوجاتی ہے۔ امام بخاری نے کتاب القراءت میں اسے بیان کیا ہے۔ اور اسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق وثنا بیان کی ہے۔ اور اس حدیث سے حجت لی ہے۔ نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔ (تهذیب سنن أبي داود لابن القیم و عون المعبود)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ مكحول صاحب تدليس، وقد عنعنه. واضطربعليه في إسناده كما يأتي: فمرة قال: عن محمود بن الربيع- كما هنا-. ومرةقال: عن نافع بن محمود بن الربيع عن عبادة- كما في الرواية الآتية-. وأخرىقال: عن عبادة- كما في التي بعدها-) .إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النُّفيْلِيُ: ثنا محمد بن سلمة عن محمدابن إسحاق عن مكحول.قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ لكن فيه ثلاث علل:الأولى: عنعنة ابن إسحاق؛ فإنه كان يدلس.
لكن قد صرح بالتحديث في بعض الطرق عنه، كما يأتي بيانه في تخريج
الحديث.الثانية: عنعنة مكحول؛ فإنه مدلس أيضاً- على اختلاف في توثيقه-، قالالذهبي في الميزان : مفتي أهل دمشق وعالمهم، وثقه غير واحد. وقال ابن سعد: ضعفهجماعة. قلت: هو صاحب تدليس .وقد ذكره ابن حبان في الثقات ، وقال (1/230) : ربما دلس .ولذلك أورده الحافظ برهان الدين العجْمِيّ الحلبي في التبيين لأسماءالمدلسين (ص 17) . وكذا الحافظ العسقلاني في رسالته طبقات المدلسين ،فقال (ص 16) :
مكحول الشامي الفقيه المشهور، تابعي، يقال: إنه لم يسمع من الصحابة
إلا عن نفر قليل. ووصفه بذلك ابن حبان. وأطلق الذهبي أنه كان يدلس. ولم أرهللمتقدمين إلا في قول ابن حبان .قلت: وتدليسه ظاهر في رواياته لمن تأمل، ومنها الرواية الثالثة الاتية لهذاالحديث، فقد رواه عن عبادة بن الصامت مباشرة، لم يذكر بينه وبينه: محمود بن الربيع.والحديث أخرجه البخاري في القراءة (ص 15 و 55) ، والترمذي (2/116-117) ، والطحاوي (1/137) ، والدارقطني (120) ، والحاكم (1/238) ،والبيهقي
(2/164) ، وأحمد (5/313 و 316 و 322) من طرق عن ابن إسحاق... به.وقال الدارقطني: هذا إسناد حسن !ونقله البيهقي عنه وأقره! مع أنه لم يقع عند الدارقطني تصريح ابن إسحاقبالسماع، وإنما وقع ذلك في رواية أخرى- له وللبيهقي وأحمد-.وفيه عنعنة مكحول. وقد اختلف عليه في إسناده- كما يأتي بيانه في العلةالثالثة-. وقال الترمذي: حديث حسن.وروى هذا الحديث الزهريُ عن محمود بن الربيع عن عبادةابن الصامت عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: لا صلاة لمن لم يقرأ بـ (فاتحة الكتاب) .وهذا أصح .قلت: والحديث الذي أشار إليه الترمذي متفق عليه، وهو في الكتاب الآخر(780) ، فلا شك أنه أصح من الذي نحن فيه، بل لا تصح المفاضلةبينهما؛فذاك صحيح، وهذا ضعيف معلول بثلاث علل، سبق آنفاً بيان العلتين.والشالثة: اضطراب مكحول في إسناده. وبيانه في الرواية الاتية:
147- وفي رواية عن مكحول عن نافع بن محمود بن الربيع الأنصاري،قال نافع:أبطأ عبادة بن الصامت عن صلاة الصبح، فأقام أبو نُعيْم المؤذنُ
الصلاة، فصلى أبو نُعيْم بالناس، وأقبل عبادة وأنا معه، حتى صففنا خلف
أبي نعيم، وأبو نعيم يجهر بالقراءة، فجعل عبادة يقرأ بأم القران، فلما
انصرف قلت لعبادة:. سمعتك تقرأ بأم القرأن وأبو نعيم يجهر؟ قال:
أجل! صلى بنا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعض الصلوات التي يُجْهرُ فيهابالقراءة، قال: فالتبست عليه القراءه، فلما انصرف أقبل علينا بوجهه
وقال: هل تقرأُون إذا جهرتُ بالقراءة؟ ، فقال بعضنا: إنا نصنع ذلك.قال:
فلا، وأنا أقول: ما لي يُنازعُنِي القرآنُ، فلا تقْرأُوا بشيء من القرآنإذا جهرتُ؛ إلا بأمِّ القرآن .(قلت: إسناده ضعيف؛ نافع بن محمود لا يعرف. وقال ابن حبان: حديثهمعلل ، كما قال الذهبي. ثم هو مضطرب كما سبق بيانه، وهذا وجه ثان منوجوه اضطرابه. وبعده ثالث) .
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے۔ آپ ﷺ نے قراءت شروع فرمائی مگر وہ آپ ﷺ پر بھاری ہو گئی۔ (یعنی آپ اس میں رواں نہ رہ سکے) جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو کہا: ”شاید کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟“ ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ پڑھا کرو مگر فاتحہ، کیونکہ جو اسے (فاتحہ کو) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔ جبکہ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ اور خطابی کہتے ہیں۔ (جید۔لاطعن فیه) یعنی حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں (عون المعبود) علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ اس روایت میں ایک علت ہے کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ عن روایت کیا ہے۔ اور وہ مدلس ہے۔ اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔ ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بہیقی نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے۔ اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے۔ اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہوجاتی ہے۔ امام بخاری نے کتاب القراءت میں اسے بیان کیا ہے۔ اور اسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق وثنا بیان کی ہے۔ اور اس حدیث سے حجت لی ہے۔ نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔ (تهذیب سنن أبي داود لابن القیم و عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ نے قراءت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ”شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟“ ہم نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو۱؎ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : جب اسے «هَذَّ يَهُذُّ» کا مصدر «هَذًّا» مانا جائے تو اس کے معنی پڑھنے والے کا ساتھ پکڑنے کے لئے جلدی جلدی پڑھنے کے ہوں گے، اور اگر «هذا» کو اسم اشارہ مانا جائے تو ترجمہ یوں کریں گے ’’ایسا ہی ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubadah ibn as-Samit: We were behind the Apostle of Allah (ﷺ) at the dawn prayer, and he recited (the passage), but the recitation became difficult for him. Then when he finished, he said: Perhaps you recite behind your imam? We replied: Yes, it is so, Apostle of Allah (ﷺ). He said: Do not do so except when it is Fatihat al-Kitab, for he who does not recite it is not credited with having prayed.