باب: ان حضرات کے دلائل جو سری نمازوں میں قرآت کے قائل ہیں
)
Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: Those Who Held That One Should Recite (Al-Fatihah) In Other Than The Aloud Prayers)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
829.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری مجلس میں تشریف لائے جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے تھے، ہم میں دیہاتی بھی تھے، اور غیر عرب بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پڑھے جاؤ، سب ہی بہتر ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (قراءت قرآن کو) ایسے سیدھا کریں گے جیسے کہ تیر سیدھا کیا جاتا ہے۔ اس کا اجر (دنیا میں) جلد ہی لینا چاہیں گے اور (آخرت تک) مؤخر نہیں کریں گے۔“
تشریح:
1۔ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔ اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کےلئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قراءت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔ 2۔ایسے لوگوں کا پیدا ہوجانا جو قراءت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی سازوسامان) جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیں۔ آثار قیامت میں سے ہے۔ 3۔ ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواز زیر وبم ہی کو قراءت جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کرلینا ازحد معیوب ہے۔ 4۔تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔ 5۔ حدیث نبویﷺ (أَحقُّ ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله) سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر(عوض واجرت) لے سکتے ہو۔ اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الإجارة، باب: 16) اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت عوض نہ لینے میں ہے۔ تاہم امام شعبی سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کرلے۔ جناب حسن بصری نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔ (حوالہ مذکور) بہر حال مدرس اورداعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں۔ اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں۔ اور عو ض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے۔ کوئی جرم نہیں۔ لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے۔ اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم إسناده: حدثنا وهب بن بقية: أخبرنا خالد عن حُمَيْد الأعرج عن محمد بن المنكدرعن جابر بن عبد الله قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وحميد: هو ابن قيس الأعرج المكي أبو صفوان القاري الآسدي مولاهم.وخالد: هو ابن عبد الله بن عبد الرحمن بن يزيد الظحان الواسطي المًزَنِي
مولاهم.والحديث أخرجه الإمام أحمد (3/397) : ثنا خلف بن الوليد: ثنا خالد...
به
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری مجلس میں تشریف لائے جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے تھے، ہم میں دیہاتی بھی تھے، اور غیر عرب بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پڑھے جاؤ، سب ہی بہتر ہے۔ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (قراءت قرآن کو) ایسے سیدھا کریں گے جیسے کہ تیر سیدھا کیا جاتا ہے۔ اس کا اجر (دنیا میں) جلد ہی لینا چاہیں گے اور (آخرت تک) مؤخر نہیں کریں گے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔ اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کےلئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قراءت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔ 2۔ایسے لوگوں کا پیدا ہوجانا جو قراءت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی سازوسامان) جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیں۔ آثار قیامت میں سے ہے۔ 3۔ ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواز زیر وبم ہی کو قراءت جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کرلینا ازحد معیوب ہے۔ 4۔تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔ 5۔ حدیث نبویﷺ (أَحقُّ ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله) سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر(عوض واجرت) لے سکتے ہو۔ اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الإجارة، باب: 16) اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت عوض نہ لینے میں ہے۔ تاہم امام شعبی سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کرلے۔ جناب حسن بصری نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔ (حوالہ مذکور) بہر حال مدرس اورداعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں۔ اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں۔ اور عو ض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے۔ کوئی جرم نہیں۔ لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے۔ اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں ظہر پڑھائی، تو جب آپ پلٹے تو فرمایا: ”تم میں سے کس نے (ہمارے پیچھے) سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی ہے؟“ تو ایک آدمی نے کہا: میں نے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے میرے دل میں خلجان ڈال دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Imran b. Husain reported that the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) led them in the noon prayer. When he finished it, he said: Which of you did recite the surah “Glorify the name of thy Lord, the Most High” (Surah lxxxvii.) A man said: I. He said: I knew that some one of you confused me in it (i.e in the recitation of the Qur’an).