Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' With Sea Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
83.
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ (پینے کے لیے) تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگیں، تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال ہے۔‘‘
تشریح:
فوائد و مسائل: (1) سمندر، دریا اور نہر کا پانی خود پاک ہوتا ہے اور پاک کرنے والا بھی، تو اس سے پینا، نہانا اور دھونا سب جائز ہے۔ اگر کہیں نجاست پڑی ہو تو و ہ جگہ چھوڑ دی جائے۔ (2) مچھلی کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بغیر شکار اپنی موت مرگئی ہو تو بھی حلال ہے اور پانی پاک رہتا ہے اور مچھلی کی تمام انواع اس میں شامل ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه البخاري والترمذي والحاكم وابن خزيمة وابن حبان وابن المنذر والطحاوي والبغوي والخطابي وابن منده والبيهقي وعبد الحق والنووي والذهبي وآخرون) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك.
وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير سعيد بن سلمة وشيخه المغيرة بن أبي بردة؛ وهما ثقتان؛ وثقهما النسائي وابن حبان. وقال الآجري عن المؤلف: المغيرة بن أبي بردة معروف . والحديث في موطأ مالك (1/44- 45) بإسناده هذا. وعنه: أخرجه محمد في موطئه (ص 67) ، وبقية أصحاب السنن الأربعة ، والدارمي والدارقطني والحاكم والبيهقي، وأحمد (2/237 و 393) . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . وصححه الحاكم، وروى له متابعات لالك عن صفوان. وتابعه- عن المغيرة بن أبي بردة-: الجلاح أبو كثير: أخرجه أحمد (2/378) ، والحاكم، وزاد هو والبيهقي في أوله: فاغتسلوا . وقال: وقد احتج مسلم بالجلاح أبي كثير . وفي التلخيص (1/84) : وصححه البخاري فيما حكاه الترمذي، وتعقبه ابن عبد البر بأنه لو كان صحيحاً عنده؛ لأخرجه في صحيحه ! وهذا مردود؛ لأنه لم يلتزم الاستيعاب.ثم حكم ابن عبد البر- مع ذلك بصحته- لتلقي العلماء له بالقبول... ورجح ابن منده صحته، وصححه أيضا ابن المنذر، وأبو محمد البغوي . وقال في التهذيب (10/257) : وصححه ابن خزيمة وابن حبان وابن المنذر والخظابي والطحاوي وابن منده والحاكم وابن حزم والبيهقي وعبد الحق وآخرون . قلت: ابن حزم قد صرح بضعفه في المحلّى فقال (1/221) : الخبر: هو الطهور ماؤه، الحل ميتته لا يصح؛ ولذلك لم نحتج به !
فلعله صح عنده بعد ذلك؛ فأورده في بعض كتبه الأخرى؛ وإلا فهو من أوهام الحافظ رحمه الله تعالى! وقال النووي في المجموع (1/82) : هو حديث صحيح . وله طرق وشواهد كثيرة، يطول الكلام بإيرادها والتكلم على أسانيدها،
فراجعها في التلخيص ، و نصب الراية . ومنها: حديث جابر: عند أحمد (3/373) ، وعنه ابن ماجه (388) ، وابن
حبان (120) . وسنده جيد.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ (پینے کے لیے) تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کرنے لگیں، تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1) سمندر، دریا اور نہر کا پانی خود پاک ہوتا ہے اور پاک کرنے والا بھی، تو اس سے پینا، نہانا اور دھونا سب جائز ہے۔ اگر کہیں نجاست پڑی ہو تو و ہ جگہ چھوڑ دی جائے۔ (2) مچھلی کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بغیر شکار اپنی موت مرگئی ہو تو بھی حلال ہے اور پانی پاک رہتا ہے اور مچھلی کی تمام انواع اس میں شامل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قبیلہ بنو عبدالدار کے ایک فرد مغیرہ بن ابی بردہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ ؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ (عبداللہ مدلجی نامی) ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کا پانی بذات خود پاک اور دوسرے کو پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurayrah (RA): A man asked the Apostle of Allah (ﷺ): Messenger of Allah, we travel on the sea and take a small quantity of water with us. If we use this for ablution, we would suffer from thirst. Can we perform ablution with sea water? The Messenger (ﷺ) replied: Its water is pure and what dies in it is lawful food.