Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: What Should Be Said When One Raises His Head From The Ruku')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
849.
جناب عامر بن شراحیل شعبی (تابعی) کہتے ہیں کہ لوگوں کو امام کے پیچھے «سمع الله لمن حمده » نہیں کہنا چاہیے۔ وہ ربنا لك الحمد کہیں۔
تشریح:
دعائوں میں منفرد امام اور مقتدی سب ہی شریک ہوں۔ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ امام شافعی مالک عطا ابو دائود۔ ابو بردہ۔ محمد بن سیرین۔ اسحاق او ردائود۔ کا میلان اسی طرف ہے۔ تفصیل کیے لئے دیکھئے۔ (نیل الأوطار، باب مایقول في رفعه من الرکوع بعد انتصابه: 279/2) جب کہ کچھ دوسری طرف بھی گئے ہیں۔ جیسے کہ امام شعبی کا یہ قول بیان ہوا ہے۔ پہلی صورت میں ان شاء اللہ راحج ہے۔ 2۔ چاہیے کہ نوخیز بچوں اور طلبہ علم کو ان دعائوں کے پڑھنے کا عادی بنایا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ).إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن سُمَي عن أبي صالحالسمَّان عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.والحديث في موطأ مالك (1/111) ... بهذا السند والمتن.ومن طريقه: أخرجه البخاري (2/131) ، ومسلم (2/17) ، وأبو عوانة(2/179) ، والشافعي (248) ، والنسائي (1/162) ، والترمذي (2/55) ،والطحاوي (1/140) ، والبيهقي (2/96) ، وأحمد (2/459) كلهم عن مالك...به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .ثم أخرجه مسلم من طريق يعقوب بن عبد الرحمن عن سهيل عن أبيه عنأبي هريرة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمٍَ ... بمعنى حديث سُمَيً.وقد ماق لفظه: الإمامُ أحمد (2/417) ، وفيه:
اللهم ربنا! ولك الحمد بزيادة الواو.وقد أخرجها (2/341) من طريق أخرى عن أبي صالح... به نحوه؛ دون
قوله: فإنه من... ، ولم يقل: اللهم! . وجمع بينهما في طرق أخرى(2/376) عن أبي هريرة أيضا.
وكذلك أخرجه ابن حبان (497- موارد) من حديث الزهري عن أنس...مرفوعاً. وعزاه السيوطي في الزيادة على الجامع الصغير (19/2) لابن حبان عن
قلت: إسناده حسن مقطوعإسناده: حدثنا بشر بن عمار: ثنا أسباط عن مُطَرف عن عامر.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير بشر بن عمار،- وهو القهسْتَانِيُ-؛ ذكره ابن حبان في الثقات!، وروى عنه جماعة. وقال الحافظ: صدوق .وأسباط: هو ابن محمد القرشي مولاهم.ومطرف: هو ابن طرِيفٍ الكوفي.
وعامر: هو الشعبي. ووقع في ا
جناب عامر بن شراحیل شعبی (تابعی) کہتے ہیں کہ لوگوں کو امام کے پیچھے «سمع الله لمن حمده » نہیں کہنا چاہیے۔ وہ ربنا لك الحمد کہیں۔
حدیث حاشیہ:
دعائوں میں منفرد امام اور مقتدی سب ہی شریک ہوں۔ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ امام شافعی مالک عطا ابو دائود۔ ابو بردہ۔ محمد بن سیرین۔ اسحاق او ردائود۔ کا میلان اسی طرف ہے۔ تفصیل کیے لئے دیکھئے۔ (نیل الأوطار، باب مایقول في رفعه من الرکوع بعد انتصابه: 279/2) جب کہ کچھ دوسری طرف بھی گئے ہیں۔ جیسے کہ امام شعبی کا یہ قول بیان ہوا ہے۔ پہلی صورت میں ان شاء اللہ راحج ہے۔ 2۔ چاہیے کہ نوخیز بچوں اور طلبہ علم کو ان دعائوں کے پڑھنے کا عادی بنایا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عامر شعبی کہتے ہیں: لوگ امام کے پیچھے: «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں، بلکہ «ربنا لك الحمد» کہیں۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: نماز کی تعلیم سے متعلق «مسيئ الصلاة» کی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پیٹھ اوپر کرتے ہوئے: «سمع الله لمن حمده» پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کسی آدمی کی نماز پوری نہیں ہوتی حتی کہ وہ یہ اور یہ کرے، اس حدیث میں کہ پھر رکوع کرے پھر: «سمع الله لمن حمده» کہے حتی کہ اچھی طرح کھڑا ہو جائے (ابوداود)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت قیام میں «ربنا ولك الحمد» پڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم امام اور مقتدی سب کو یہ فرما کر دیا کہ: «صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أُصَلِّي»۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: امام کو اس کی اقتداء ہی کے لئے بنایا گیا ہے، فرمایا: اور جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو «اللهم ربنا ولک الحمد» کہو، اور اس کی تعلیل ایک دوسری حدیث میں یوں کی ہے کہ جس آدمی کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہو گیا تو اس کے ماضی کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اس تفصیل کے مطابق امام اور مقتدی سب کو دونوں دعا پڑھنی چاہئے، بعض ائمہ جیسے شعبی کا مذہب ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہیں صرف «ربنا ولك الحمد» پر اکتفا کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Amir said: The people behind the imam should not say: “Allah listens to him who praises Him.” But they should say: “Our Lord, to Thee be the praise”.