تشریح:
1۔ کپڑوں کی قلت اور ناداری کے باعث بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ایک ایک چادر میں نماز پڑھتے تھے۔ اور بعض اوقات وہ اس قدر مختصر ہوتی تھیں۔ کہ انہیں گردنوں پرباندھے ہوتے تھے۔ اس لئے مذکورہ ہدایات دی گیئں اوراب اگرچہ حالات بدل گئے مگر ارشاد نبوی ﷺ پر عمل واجب ہے۔ قرینہ اس کا آپﷺ کی تاکید سے یہ فرمانا ہے۔ کہ جو تم میں سے اللہ اور قیامت پرایمان رکھتی ہے۔ نیز اس کی دوسری مثال طواف قدوس میں رمل کرنا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا یہ بھی ایک وقتی ضرورت سے تھا۔ مگر جملہ ائمہ امت نے اس سنت کو علی حالھا باقی رکھنا تسلیم کیا ہے۔
2۔ صحابیات بھی نماز باجماعت کااہتمام کرتی تھیں۔
3۔ دوسرے کے ستر کودیکھناجائز ہے۔ اور اچانک نظرپڑنے کے اندیشے سے بھی بچنا چاہیے۔ البتہ زوجین اس سے مستثنٰی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير مولى أسماء؛ فإنه لم يُسَمَّ، فهومجهول.وبه أعله المنذري (1/414) .لكني وجدت له متابعاً يشهد بصحة حديثه؛ كما يأتي.ومحمد المتوكل- وإن وثقه ابن معين وابن حبان-؛ فقد قال ابن عدي وغيره:
كثير الغلط . وفي التقريب : صدوق عارف، له أوهام كثيرة .
قلت: لكنه لم يتفرد به كما يأتي، فدلَّ ذلك على أنه قد حفظ.والحديث أخرجه البيهقي (2/241) من طريق المصنف.
وأخرجه أحمد (6/348) : ثنا عبد الرزاق... به.وقال الحميدي في للمسنده (327) : حدثنا سفيان قال: ثنا أخو الزهري...
به ثم قال أحمد: ثنا عفان قال: حدثني وهيب قال: حدثني النعمان بن راشد
عن ابن أخي الزهري... به.ثم قال: ثنا سُرَيْجُ بن النعمان قال: ثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن عروةعن أسماء بنت أبي بكر قالت: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يا معشر النساء! من كان منكن يؤمن بالله واليوم الآخر؛ فلا ترفع رأسها
حتى يرفع الإمام رأسه؛ من ضيق ثياب الرجال .
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري.وبه صح الحديث؛ والحمد للّه.وله شاهد من حديث أبي سعيد الخدري... مرفوعاً نحوه.أخرجه ابن حزم في المحلى (3/227) ؛ وإسناده حسن.